ہجری کیلنڈر کا آغاز ہمیں کس واقعہ کی یاد دلاتا ہے؟

  

ہجری کیلنڈر کا آغاز ہمیں کس واقعہ کی یاد دلاتا ہے؟

جس طرح بعض لوگ  ایک دوسرے کو نئے شمسی سال کے آغاز کی  مبارک باد دیتے ہیں   تو کچھ لوگوں نے سوچا کہ چونکہ مسلمانوں کا اپنا ایک ہجری کیلنڈر  بھی ہے تو کیوں نہ ہجری سال کے آغاز کی بھی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جائے۔ لیکن  یہاں سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا  مسلمانوں کے یہاں ہجری کیلنڈر  کی اہمیت صرف اتنی سی ہے کہ ہر سال  اس کے آغاز میں ایک دوسرے کو ایک  بے معنی سی مبارک باد   دے دی جائے اور بس؟  پھر یہ کیلنڈر "ہجری کیلنڈر" کیوں کہلاتا ہے؟ یہاں یہ بات تو سمجھ میں  آتی ہے  کہ اس کی نسبت یقینا ً مسلمانوں کی  ہجرت کی طرف ہے جو انہوں نے مکہ  سے مدینہ کی طرف کی تھی۔ لیکن    سوال  یہ    ہے کہ   مدینہ کی ہجرت   کو مسلمانوں کی تاریخ میں کس وجہ سے اتنی اہمیت حاصل ہے کہ مسلمانوں کے کیلنڈر کی ابتداء بھی اسی سال سے شمار کی گئی؟ کیا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے دور میں  اور بھی اہم ادوار نہیں گزرے کہ جن سے  مسلمان اپنے کیلنڈر کی ابتداء کرتے ؟ جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ یا پھر آپ ﷺ کی  رسول کے طور پر بعثت  کہ جب اللہ  سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر  اپنی پہلی وحی  نازل فرمائی۔ لہٰذا   جبریل امین ؒ اآسمانوں سے اترے  اور  آپﷺ کے قلب مبارک پر  قرآن مجید کی ابتدئی آیات کو اتارا۔ یہ یقینا ً مسلمان تو کیا اس وقت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک اہم ترین واقعہ تھا۔ پھر اسراء و  مراج کوئی کم اہم  واقعہ نہیں کہ جس میں نہ صرف یہ کہ  رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء  کرام  ؑ کی امامت فرمائی  بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے کلام بھی کیا اس حالت میں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان صرف ایک پردہ حائل تھا۔  پھر صلح حدیبیہ اور فتح مکہ بھی اپنی الگ الگ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال نہایت اہم ہو جاتا ہے کہ   آخر ہجرت ہی کو کیوں  اسلامی کیلنڈر کے آغاز کی بنیاد بنایا گیا؟ کیا  مسلمانوں کی تاریخ میں  ہجرت کے  واقعہ کی اہمیت  کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ایک  جائے امان حاصل کرلینے  سے  کہیں بڑھ کر ہے؟

بعض لوگوں کے خیا ل  میں اس ہجرت کا مقصد یہی  تھا  جس کا آخر میں ذکر بھی ہوا۔  لیکن یہ کہنا کہ   شاید   رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے  ہجرت کی ، کم سے کم دو وجوہات کی بناء پر درست نہیں۔ ایک تو یہ کہ کچھ  مسلمان  پہلے سے  ہی حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے ۔ اگر اور مسلمانوں کو بھی  محض ہجرت ہی کرنا مقصود ہوتا   تو وہ حبشہ ہی کی طرف رخ کر سکتے تھے اور یہ ان کے لئے نسبتاً  سہل بھی ہوتا کیونکہ حبشہ میں مسلمان مہاجرین  کی باقاعدہ ایک کمیونٹی آباد ہو چکی تھی   ۔ دوسرا یہ کہ یہ بات منصب رسالت  کے سرا سر خلاف ہے کہ ایک رسول جس کو کسی جگہ پر اس مقصد کے لئے بھیجا  گیا ہو کہ وہ  لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف  دعوت دے  اور اس سلسلے میں پیش آنے والے  تمام  مصائب اور آزمائشوں  کا صبر و استقامت کے ساتھ سامنا کرے ، لیکن  وہ ان مظالم سے تنگ آ کر   کسی اور شہر  کی طرف ہجرت کر جائے   ! رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی جانب ہجرت  صرف اور صرف اس لئے کی  تھی کہ اوس اور خزرج کے قبائل نے آپ ﷺ کو اپنے حاکم کے طور پر قبول کر کے مدینہ آ کر  اپنے درمیان حکومت کرنے  پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ بیعت عقبہ ثانیہ وہ موقع تھا کہ جس میں  اوس و خزرج کے  سرداروں نے  رسول اللہ ﷺ کو ایک حاکم کے طور پر بیعت دی تھی۔ اس بیعت کے آغاز میں آپ ﷺ کے چچا عباس ؓ نے اوس و خزرج  کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :" ہم نے اب تک آپ ﷺ کو ان کے مخالفین سے محفوظ رکھا ہے ۔ وہ اپنی قوم اور شہر میں رہتے ہوئے با عزت اور محفوظ ہیں لیکن اب اصرار کر رہے ہیں کہ تمہارے ساتھ تمہارے شہر جائیں گے۔ خوب اچھی طرح سوچ لو۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ ان سے کیا ہوا عہد پورا کر سکتے ہو اور انہیں ان کے مخالفین سے محفوظ رکھ سکتے ہو تو بخوشی یہ ذمہ داری اٹھاؤ ورنہ انہیں یہیں رہنے دو۔ وہ اپنی قوم اور شہر میں عزت اور حفاظت سے رہ رہے ہیں"۔اسے ابن ہشام نے  سیرت النبی میں حسن سند سے روایت کیا ہے۔اس واقعہ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ کی طرف ہجرت کفار کے مظالم کے پیش نظر نہیں تھی۔

 سن ۱۶ہجری میں جب کہ ابھی تک مسلمانوں میں ہجری کیلنڈر رائج نہیں تھا تو حضرت عمر فاروق ؓ کو اپنے  دور خلافت میں  ایک دستاویز موصول ہوئی جس میں شعبان کی تاریخ لکھی ہوئی تھی تو  یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا اس سے اسی سال  کا شعبان مراد ہے یا اس سے پچھلے کسی سال کا۔  اس سے  پہلے تک عرب میں سالوں کی شناخت ان میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت عام الفیل   میں ہوئی یعنی اس سال میں جس میں ابرہہ الاشرم ہاتھیوں کو لے کر کعبہ پر حملہ آور ہو گیا تھا۔ اسی طرح عام الفجار اس سال کو کہا جاتا تھا جس میں  قریش اور بنو ہوازن  کے مابین  جنگ فجار لڑی گئی جس وقت رسول اللہ ﷺ ابھی پندرہ سال کے تھے۔ لہٰذا اس مسٔلہ پر  کبار صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا گیا اور ان سے مشورہ  طلب کیا  گیا جس کے نتیجہ میں یہ طے پایا  کہ مسلمانوں کا اپنا ایک کیلنڈر ہونا چاہیئے۔  پھر یہ مسٔلہ زیر غور آیا کہ اس کیلنڈر کی ابتداء کہاں سے قرار  دی  جائے تو حضرت علی ؓ نے مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کے سال  کو   اس کیلنڈر کے آغاز کا سال قرار دئیے جانے کا مشورہ دیا جس پر تمام کبار صحابہ  ؓ نے بلا تامل اتفاق کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کو   اس بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ میں   ہجرت کا واقعہ ایک نہایت  اہم واقعہ ہونے کی حیثیت   کا حامل ہے۔ 

ہجرت مدینہ کو اتنی اہمیت اس لئے حاصل ہے کیونکہ یہ وہ موقع ہے کہ جب اس  عظیم الشان اسلامی   ریاست کی بنیاد پڑی جس کے اولین  حاکم خود رسول اللہﷺ تھے اور جس کی قیادت کو آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے سنبھالنا تھا۔ لہٰذا یہ ہجرت شریعت الٰہی کا مظہر بنی جس میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو  اس ریاست مدینہ میں اپنے اختیار کے ذریعے  بطور حاکم نافذ کیا ،جو کہ اس وقت  مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے  ممکن نہ تھا۔ یہ ہجرت   اوس  اور خزرج کے قبائل کے  سرداروں کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو  دین کے نفاذ کے لئے اقتدار  فراہم کرنے کے نتیجہ میں ہوئی۔ ان سرداروں سے رسول اللہ ﷺ کی ملاقات اس وقت ہوئی کہ جب آپ ﷺ نے اپنے آپ کو عرب کے مختلف قبائل کے سرداروں پر  دعوت و  نصرت کی غرض سے  پیش کرنا شروع کر دیا تھا تا  کہ آپ  ﷺ کو کوئی ایسا اقتدار یا اتھارٹی حاصل ہو سکے جس کے ذریعے آپﷺ  شریعت کے احکامات کو  عوام الناس  پر نافذ کر سکیں۔ ابن ہشام  سیرت رسول ﷺ میں ابن اسحاق سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :" جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنا چاہا اور اپنے نبی ﷺ کو اعزاز بخشنا چاہا اور  اپنے نبی ﷺ کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے  کو پورا کرنا چاہا تو  رسول اللہ ﷺ زمانۂ حج میں نکلے  تا کہ  اپنے آپ کو عرب قبائل کے سامنے دعوت کے لئے پیش کر سکیں  کہ  (اس دوران) آ پ ﷺ کی ملاقات     انصار میں سے بنو خزرج کی   ایک جماعت سے  ہوئی جس کی بھلائی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی"۔  لہٰذا یہ  ہجرت یقینا ً  ایک ریاست کے ذریعے اسلام کے غلبے اور شان و شوکت کے دور کا نقطۂ آغاز تھی۔

رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قبائل عرب کے سرداروں  کو دعوت محض اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں تھی بلکہ ان سے اقتدار طلب کرنے کی دعوت بھی تھی۔ اس بات  کا اندازہ اس مکالمہ سے ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ  اور قبیلہ بنو عامر ابن صعصعہ کے درمیان ہوا جس میں  ان کے سردار بیحرہ بن فراس نے دریافت کیا کہ :" اگر  ہم آپ کے پیروکار بن جائیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو مخالفین پر غالب کر دے  تو کیا آپ کے بعد حکومت ہمیں ملے گی"۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:"حکومت تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ جسے  چاہے گا عطا کر دے گا"۔ یہ سن کر  اس  نے کہا :"اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی حفاظت کی خاطر عربوں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور جب اللہ تعالیٰ آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو حکومت دوسروں کو مل جائے ۔ ہمیں ایسے دین کی ضرورت نہیں"۔ اسے  ابن اسحاق نے امام  زہری سے روایت کیا ہے۔  اسی  طرح بنو شیبان کے سردار مثنیٰ بن حارثہ  نے کہا :" ہم نے کسریٰ سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ نہ ہم خود بغاوت کریں گے نہ کسی باغی کو پناہ دیں گے ۔ میرا خیال ہے جس بات کی آپ دعوت دے رہے ہیں بادشاہ عموماً ایسی باتیں پسند نہیں کرتے۔ پس اگر آپ پسند کریں کہ صرف عرب  کے علاقے کی حد تک ہم آپ کی نصرت کریں تو ہم تیار ہیں"۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس مشروط  حمایت  کی  پیشکش کو قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :"  اللہ تعالیٰ کے دین کا   ناصر (یعنی مددگار ) وہ شخص بن سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو"۔ اسے حاکم ، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے (فتح الباری ، ج ۷، ص۲۲۰)۔

 ان اور ایسے دیگر  واقعات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبائل عرب کے سرداروں کو دعوت  محض اسلام کو قبول کرنے کی دعوت نہیں تھی بلکہ  اس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت اور  اقتدار   طلب کرنے  کی دعوت بھی تھی ۔ لہٰذا کسی نے رسول اللہ ﷺ کے بعد  حکومت انہیں  دیئے جانے کا مطالبہ  کیا   تو کسی نے   اہل عرب سے ٹکر لینے کے لئے تو آمادگی کا اظہار کیا  لیکن سلطنت  فارس سے ٹکر لینے سے انکارکردیا۔یعنی انہیں معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ حکومت کے لئے اقتدار  طلب کر رہے ہیں، وہ حکومت کی  جس کا مقابلہ پھر دنیا کی اقوام سے ہونا ہے۔

پھر  اسی دعوت کے نتیجہ میں جب اوس اور خزرج کے سرداراسلام قبول کرکے رسول اللہ ﷺ کو مدینہ میں اپنے حاکم کے طور  پر مدعو کرنے پر   رضامند ہوئے  تو   انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا تذکرہ بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے اوپر گزر چکا ہے۔ اس سلسلے میں   سیرت کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوس و خزرج یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اس بیعت کا مطلب رسول اللہ ﷺ کو حکومت دے کر دین  اسلام کی  خاطر  تمام اقوام عالم کو اپنے خلاف کر لینا ہے۔  لہٰذا انصار میں سے عباس بن عبادہ بن نضلہ ؓ انصار کو متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں( تا کہ وہ مکمل بصیرت کے ساتھ یہ بیعت کریں کہ)  :" آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں ہر سرخ و سیاہ سے لڑنا پڑے گا ۔ جنگیں ہوں گی ، آفتیں آئیں گی ، تمہارے مال و دولت کا صفایا ہو جائے گا اور تمہارے معزز سردار قتل ہو جائیں گے۔ ان ممکنہ نتائج پر ابھی غور کر لو"۔ اسے ابن اسحاق نے عاصم بن عمر سے  روایت کیا ہے۔ اسی طرح اسعد بن زرارہ ؓ بھی انصار کو پکار کر کہتے ہیں:" پھر سوچ لو! رسول اللہ ﷺ کو یہاں سے اپنے ساتھ یثرب لے جانے کا مطلب پورے عالم عرب سے دشمنی اور جنگ ہے۔ تمہارے مایہ ناز سردار قتل کر دیئے جائیں گے اور تلواریں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گی۔اگر یہ کچھ برداشت کر سکتے ہو تو انہیں  ہاتھوں پر  اٹھا لو"۔اسے احمد نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ( الفتح الربانی ، ج ۲۰، ص۲۷۰)۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے ان تمام واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ  مدینہ کی جانب ہجرت کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہاں جا کر ایک اسلامی ریاست کو قائم کیا جائے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ کیا جائے۔ مکہ کے آخری سالوں میں قبائل عرب کے سرداروں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے میں رسول اللہ ﷺ کا  مقصد بھی یہی تھا کہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ان سے حکومت کے لئے اقتدار  بھی طلب کیا جائے۔ اور یہ سب اللہ  سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر کیا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اوس و خزرج وہ قبائل تھے جنہیں یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں  نے رسول اللہ ﷺ کو  وہ اقتدار  فراہم کیا جس کے ذریعے آپ ﷺ نے مدینہ میں  ایک عظیم الشان اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ انہی اوس اور خزرج کے مسلمانوں کو  " انصار" بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اسلامی ریاست کے قیام کے لئے "نصرت" یعنی مدد فراہم کی تھی   یہاں تک کہ اب  وہ عظیم مسلمان اوس و خزرج  کی نسبت سے کم جبکہ  انصار کے نام سے زیادہ یاد کیے  جاتے ہیں۔

لہٰذا ہجرت مدینہ اسلام کی تاریخ میں اہم ترین واقعات میں  سے ہے اور ایک نہایت اہم موڑ ہے کہ جس کے بعد سے اسلام کے ایک ریاست کے طور پر  غلبے کے دور  کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی بدولت  صحابہ کرام ؓ نے بالاتفاق   ہجرت مدینہ  کے سال کو  اسلامی کیلنڈر کا   پہلا سال قرار دیا  ۔ یہاں سب سے آخر میں ایک سوال ہم نے اپنے آپ سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ کیا ضرورت اس امر کی نہیں کہ ہر نئے اسلامی سال کے شروع ہونے پر ایک دوسرے کو بے مقصد مبارک باد دینے کی بجائے تمام مسلمانوں کے لئے اسلامی ریاست کے ہونے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا  جائے؟

 


تبصرے