چاند کا مسٔلہ
چاند کا مسٔلہ
ہر سال خاص طور پر رمضان کی آمد کے ساتھ چاند کے اپنے ملک یا اپنے شہر میں دکھنے یا نا دکھنے پرامت کا وہ حصہ جو ہندوستان میں رہتا ہے ایک کشمکش اور الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ جب امت ایک ہے،اُس کے مسائل قریب قریب سارے عالم میں ایک ہیں ،امت کا ہر حصہ دوسرے سے ایک گہرے جذباتی رشتہ سے جڑا ہوا ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ جب بات رمضان یا عید کے چاند دیکھنے کی ہو تو امت کا یہ حصہ تقریباً ساری دنیا کے مسلمانوں سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ایک عام مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ علماء جب ایک ایسے مسئلے میں اتفاق ِ رائے کرنے سے عاجز ہیں ،تو پھر امت میں اتفاق اور اتحاد کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟بعض اوقات مسلمانوں کے ممالک میں خاص کر ہندوستان سے دو دن پہلے ہی رمضان شروع ہو جاتے ہیں اور عید بھی دو دن پہلے ہی ہو جاتی ہے۔بلکہ ایک ہی ملک کے الگ الگ صوبوں میں علیحدہ عیدیں منانا آج عام بات ہو گئی ہے۔ان سطور کے ذریعے اس مسئلے کے فقہی اور اس سے وابستہ شرعی مسائل پر غور کیا گیا ہے،جو امت کے باشعور لوگ ،خاص کر ہر وہ شخص جو امت کا درد رکھتا ہے، اور امت کو ایک متحد وحدت کی شکل میں دیکھنے کی تمنّا رکھتا ہے،اس کے جذبات کی ترجمانی ہو سکے ۔
بحیثیت مسلمان ہونے کے ،ہمارے سامنے پیش آنے والی ہر صورت ِ حال کا حل ہمیں اللہ تعالیٰ کے کلام،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اجماع سے بالترتیب حاصل کرنا چاہئے۔چنانچہ اب ہم اِن تینوں چیزوں میں اس مسئلے کے بارے میں موجود ہدایات پر نظر ڈالیں۔
سب سے پہلے قرآن حکیم کو دیکھیں تو اُس میں اس بابت صرف ایک آیت ملتی ہے،جو ہمیں یہ بتاتی ہے مہینوں کا تعین چاند سے ہوتا ہے۔سورہ ٔ نساء کی آیت۱۰۳ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ كَانَتۡ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ كِتَٰبا مَّوۡقُوتا (ترجمہ:بے شک نماز مومنوں پرمقررہ اوقات میں فرض ہے۔)(ترجمہ معانیٔ قرآن)؛جبکہ سورہ ٔ بقر کی ۱۸۹ آیت میں چاند کومہینوں کے تعین کا آلۂ شناخت بتایاہے۔ ارشاد پاک ہے : يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ (ترجمہ: (اے محمدﷺ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ،کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے)۔ نمازو ں کے وقت کاتعین سورج سے ہوتا ہے اور مہینوں کا تعین چاند سے۔ پھر کچھ لوگ یہ بحث رکھتے ہیں کہ مثلاً سعودی عرب اور ہندوستان میں ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے تو پھریہاں عید ایک یا دو دن بعد ہونا فطری بات ہے۔ اگر یہ منطق مان بھی لی جائے تو اس کی روسے سعودی عرب اورانڈونیشیا میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے چنانچہ انڈونیشیا میں عید سعودی کے دو یا چار دن بعد ہونا چاہئے اور امریکہ کیونکہ سعودی عرب سے دس گھنٹے پیچھے ہے اس لئے وہاں عید چار سے آٹھ دن پہلے ہی ہوجانا چاہئے!ایسی دلیل ،درحقیقت کوئی دلیل نہیں بلکہ بے علمی پر مبنی ہے،اور کسی بھی سنجیدہ شخص کی توجہ کے قابل نہیں۔
آئیے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل پرنظر ڈالیں ۔بخاری اور مسلم شریف کی حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا:چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کرروزے کھولو،اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس دنوں کی گنتی پوری کرو۔(صحیح بخاری:کتاب الصوم؛جلد اول؛حدیث رقم ۱۷۸۲)
ابو داؤد کی روایت کے مطابق ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیااور بتایا کہ اُس نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعرابی سے پوچھا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی شہادت دیتا ہے،اعرابی نے اقرار کیا کہ ہاں وہ یہ شہادت دیتا ہے ،پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا کہ کیا وہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم) کا اللہ کے رسول ہونے کا اقرار کرتا ہے،اس پر بھی اعرابی نے ہاں کہا اور گواہی دی کہ اُس نے چاند دیکھا ہے،پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کر دیں کہ کل سے روزوں کا حکم ہے۔(راوی حضرت عبداللہ ابن عباسؓ؛سنن ابو داؤد :رقم حدیث۲۳۳۳) اسی طرح ابو داؤد کی اور روایات جیسے حدیث رقم۲۳۳۴اور۲۳۳۵میں بھی یہی بات دوسرے راویوں کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے۔
اسی طرح عید کے چاندکے وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کی شہادت قبول فرمائی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چاند کی شہادت قبول کئے جانے والی تقریباً ہر حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے گواہی دینے والے سے اسکے اسلام قبول کرنے کی بات کو پوچھ پوچھ کر یقینی بنایا کہ وہ مسلم ہی ہے لیکن اِن میں سے کسی بھی حدیث میں اُس گواہ سے اسکے نام،یا شہر یا اُس کے شہر کا مدینہ منورہ سے فاصلے کے بابت پوچھا جانا روایت نہیں کیا گیا ہے،کیونکہ چاند کی اطلاع کو تو بہرحال سارے مسلمانوں پر ،خواہ وہ کسی بھی خطہ میں مقیم ہوں، اور اُن کا شہر مدینہ منورہ سے کتنے ہی فاصلے پر ہو، منطبق ہو نا ہی ہے،ورنہ آپؐ خودایسے گواہ سے فاصلے کے بابت سوال پوچھ کر اُسکی شہادت کو رد فرما دیتے اور امت کو یہ سبق دے جاتے کہ اِتنے اِتنے فاصلے کے بعد چاند کی ًشہادت قبول نہ کرتے ہوئے اپنے ہی محلے ،گلی ، شہریا ملک میں چاند کے دکھ جانے کا انتظار کرو!۔مثال کے طور پر ابو داؤد ہی میں حدیث رقم ۱۱۵۳ ملاحظہ فرمائیے،حضرت ابو عمیر ابن انسؓ اپنے چچا کی سند پرروایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ اونٹوں پرسوار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور بیان کیا کہ انہوںنے کل چاند دیکھا ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو روزہ کھولنے کا اور اگلے دن (عید کی)نماز کیلئے عیدگاہ پہنچنے کاحکم دیا۔حالانکہ اُس وقت عصر کا وقت ہو چکا تھا اورروزہ مکمل ہوا ہی چاہتا تھا،لیکن کہیں اور چاند کے دکھ جانے سے مدینہ منورہ میں بھی اب چونکہ عید ہونا تھی لہٰذا روزہ حرام ہوجاتا چنانچہ اُسی وقت حضورؐ نے افطار کا حکم دیا۔آج اُسی مدینے میں چاند ہو جانے اور عید ہو جانے کے باوجود ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں تیسواں یا کبھی اُنتیسواں روزہ رکھنا عام بات ہو گئی ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اب کونسا شرعی حکم بدل گیا ہے؟
لیکن اس کے دوسری طرف ایک اورروایت سامنے آتی ہے جس سے بظاہر ایساتصور ابھرتا ہے کہ دو مقامات پر دو الگ الگ دن چاند ہونے کا امکان ہے۔اس روایت کے مطابق ایک شخص ملک شام سے لوٹے تو حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اُن سے چاند کے بارے میں دریافت کیا کہ شام میں چاند کب ہوا،جواب ملا کہ وہاں چاند جمعہ کی شب کو ہوا،جبکہ مدینہ منورہ میں چاند سنیچر کو ہوا،اور جب پوچھا گیا کہ کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے کو دلیل نہیں مانتے ،تو حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ ؐ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔اب اس روایت کی بنیاد پر ہر علاقے میں الگ چاند ہونے کے امکان کو قبول کیا جارہا ہے اور موجودہ طرزِ عمل کا جواز پیش کیا جا رہا ہے،جبکہ اس میں دو قباحتیں ہیں۔اوّل تو یہ کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کا یہ محض ذاتی اجتہاد ہو سکتا ہے،اس بات کو علماء کی اکثریت نے تسلیم کیا ہے کہ فی الحقیقت یہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کاانفرادی عمل تھا،اوردوسرے یہ معاویہ کے بہرحال خلیفہ ہونے کے سبب یہ ناممکن تھا کہ خلیفہ کے حکم کے بعد اہل ِ مدینہ نے اس حکم کے خلاف کسی اور دن سے رمضان شروع کیا ہو۔اس موضوع پر’’تحفۃ القدیر‘‘ میں جو کہ فقہۂ حنفیہ کی معتبر کتاب ہے لکھا ہے کہ اس روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے ملک ِ شام کے چاند کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ دراصل اُس خبر کا صرف ایک گواہ ہونا ہے۔(تحفتۃ القدیر2.314:)۔اسی رائے کی تائیدایک اور معتبر کتاب المغنی میں ہے کہ اس روایت میں دوسری جگہ کے چاند کو مسترد کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے کہ ہر جگہ کے چاند کو مسترد کرواوراپنے مقام پر ہی چاند کے دکھنے کا انتظار کرو(المغنی 3.5:)۔امام النووی رحمۃ اللہ علیہ مسلم شریف کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اگرچاند کا دکھناایک مقام پر ثابت ہوجائے ،تو دوسری جگہ کے لوگوں پراس کا ماننا ضروری ہو جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے ایک شخص کی گواہی پرچاند کوقبول نہیں کیا تھا کیونکہ رمضان کے چاند کیلئے دو اشخاص کی گواہی کو معتبر مانتے تھے۔صاحب ِ نیل الاوطار علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔
ایک دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر جگہ مطلع الگ ہوتا ہے اوراس ’’اختلاف المطالع‘‘ کی بنیاد پرہر جگہ الگ الگ عید ہونے کوصحیح قرار دیا جاتا ہے۔آئیے یہ دیکھیں کہ اس اختلاف المطالع کی شرعی حقیقت کیا ہے۔فقہہ حنفیہ کے فتاویٰ کا معتبر ترین ذخیرہ فتاویٰ عالمگیری مانا جاتا ہے،جلد اول صفحہ198ملاحظہ فرمائیے،لکھا ہے کہ مطالع کے اختلاف کی کوئی اہمیت حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے منقول نہیں ہے!ایک اور کتاب ’’مذاہب اربعہ‘‘ کی جلداول صفحہ550 پر اس موضوع پرچاروں مسلکوں کی رائے کا حوالہ دیتے ہوا لکھا ہے کہ جب چاند کہیں ثابت ہو جائے توروزے رکھنا سب پر فرض ہوجاتا ہے،مطالع کے اختلاف کی کوئی وقعت نہیں ہے۔اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن ِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ’’فتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دکھنے کا علم بر وقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے، اور ضرور رکھے،اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے،اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کردینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی۔‘‘(فتاویٰ ؛جلد پنجم:صفحہ:۱۱۱)
پھر اگر بحث کی خاطر یہ مان بھی لیا جائے کہ علوم نجومیات (ایسٹرونومی)کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف مطلع کے اختلاف کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ہندوستان وپاکستان کے مشرق ،مغرب ،شمال جنوب کے تمام ممالک میں ایک دن اور صرف اِن دو ممالک میں ایک یا دو دن بعدچاند دکھے اور ہر سال ایسا ہی ہو،اور یہ آفت قریب قریب اُس وقت سے شروع ہوئی جب خلافت ِ عثمانیہ کو ختم کیا گیا،کیونکہ مغربی ملک اور یہودی دراصل مسلمانوں کے اتحاد سے ڈرتے تھے اور خلافت مسلمانوں کے اتحاد کا اعلیٰ ترین اور عملی مظہر تھی جو ہمیشہ دشمنوں کو کھٹکتی تھی،پھر اس کے بعد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امت ایک دن عید منائے،یہ کیسے دشمن گوارہ کرتا،چنانچہ اختلاف ِ مطالع کے ناقابل فہم تصور میں الجھا دیا گیا،جسے ہمارے کبار ِ علماء نے کبھی تسلیم نہ کیا تھا۔ پھر اس کی رو سے ایسا ہی کیوں ہوتاہے کہ ہندوستان میں یہ مسئلہ اب پیدا ہونے لگا ہے ہے جب کہ پرانے وقتوں میں یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ تک یہ بات نہیں تھی۔ مثلاً اُس سے پہلے کے حج کے سفرناموں کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب اور ہندوستان میں چاند کی ایک ہی تاریخ چلتی تھی،شیخ الہند حضرت مولٰنا محمودالحسن اور شیخ الاسلام حضرت مولٰنا حسین احمد صاحب مدنی رحمہم اللہ کے سفر نامہ حجاز سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی تاریخ چلتی تھی۔مثال کے طورپر ’’اسیران مالٹا‘‘ملاحظہ فرمائے جس میںان اکابر علماء کے سفر نامے کو حضرت مولٰنا سیّد محمد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ترتیب دیا ، اور کتب خانہ نعیمیہ ،دیوبند نے شائع کیا ہے۔
قدرتی طور پرایک عام آدمی یا پڑھا لکھا اور سائینسی علوم سے واقف شخص یہ سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ جب چاند کسی بھی علاقے میں دو دن پہلے دکھ گیا،یعنی نیا چاند ہوگیا جس کی ایک خاص شکل ہوتی ہے،پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہی چاند دو دن یا ایک دن بعد ،جب کہ وہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے ،کسی اور جگہ اپنی پہلے دن کی شکل میں نظر آئے،جب کہ ایسا کرنے کے لئے چاند کو پھر باریک ہونا پڑیگا،جو کہ ناممکن ہے جب تک کہ وہ دوبارہ ایک ماہ پورا نہ کر لے؟یہ ایک اتنی عام فہم حقیقت ہے کہ سائنس پڑھنے والا کوئی مڈِل سْکول کا بچہ ہو،یا کسی یونیورسٹی کے شعبۂ ایسٹرونامی کا پروفیسر،وہ اس سے لازماً اتفاق ہی کریگا،کیونکہ یہی اصل واقعہ ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
ایک اور حقیقت ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں ملحوظ رکھنا چاہئے کہ قرآن اور حدیث کا ہر حکم ہر مسلمان کیلئے بحیثیت ایک مسلم ہونے کے عائد ہوتا ہے،البتہ بعض احکامات مَردوں کیلئے خاص ہیں نا کہ عورتوں کیلئے،جب کہ دیگر احکامات عورتوں کیلئے مخصوص ہیں نا کہ مَردوں کیلئے،لیکن بہرحال کوئی بھی حکم کسی علاقۂ خاص میں رہنے والوں کو خاص طور سے نہیں دیا گیا، کہ فلاں حکم صرف یوروپ کے گوروں کیلئے ہے اور افریقہ کے سیاہ فام اس سے مستثنیٰ ہیں،پھر چاند کے ساتھ ایسا کس شرعی دلیل سے کیا جائے؟جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا فعل یہ تھا کہ آپؐ نے مدینے سے باہر کی گواہی پر، یہ پوچھے بغیر کہ شہادت دینے والا کس گاؤں یاکس شہر یا کتنے فاصلے سے آیا ہے، چاند کے ہونے کو تسلیم فرمایا اور روزہ رکھنے اورتوڑنے کا حکم دیا،جب کہ آپؐ صاحب ِ وحی تھے، اور بہت ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے آپ کو یہ علم بھی ہو،لیکن اس واقعہ سے مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا مقصود تھی کہ اگرہمارے علاقہ میں کسی وجہ سے چاند نہیں نظر ائے تو دو مسلمانوں کی شہادت قبول کر لیں۔پھر آج شہادت تسلیم بھی کی جاتی ہے تو صرف ایک ملک ِ خاص کے شہروں سے،دوسرے ملک کے شہروں سے نہیں،جب کہ اسلام میں ایسا کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے،اور یہ بات رسول ؐ کے اُس فرمان کے براہ ِ راست ٹکراتی ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں،اُن کا شہر(یا ملک) ایک ہے اور اُن کی جنگ ایک(المُسلِمینَ امَّۃٌ واحِدۃ،بِلَادُھُمْ واحِدَۃ وَحَرْبُھُمْ واحِدَۃ)۔مثلاً ۱۹۷۱ء تک مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ شہر میں مغربی پاکستان کے پیشاور یا کراچی سے چاند کی شہادت قابل اعتبار تھی،لیکن تقسیم پاکستان کے بعد اب بنگلہ دیش کیوں اُن مقامات سے شہادت نہ لے؟ملک کی اِس تقسیم کے باعث کون سا شرعی حکم بدلا ہے کہ اب یہ شہادت قبول نہ کی جائے۔
یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ چاند کی پوری گولائی ۱۴ تاریخ ہی کو ہوتی ہے۔جب کہ اس سال ہندوستان میں وہاں کے بارھویں روزے کی شام کو ہی چودہویں کا چاند اس بات کا کھلا ہوا ثبوت بن کر چمک رہا تھاکہ رمضان حقیقت میں دو دن پہلے شروع ہوچکے تھے ،لیکن مندرجہ بالا تمام حقائق اور دلائل کو طاق پر رکھ کراسلامی دنیا سے چاند کی گواہی قبول نہیں کی گئی،نتیجتاً شروع کے دو روزے ضائع ہو گئے۔آخر اس کا ذمہ دار کون؟اور کیا عمر بھر قضا ء روزے رکھ کر بھی وہ ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے؟دوسرے یہ کہ یہ قطعی اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ چاند ایک ہی وقت میں ’’پیدا ‘‘ ہوتا ہے اور پھر جہاں مطلع صاف ہو وہاں نظر آ جاتا ہے سائینسی معلومات کے حوالے چاند ہر ۲۹ دن ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ اور ۸،۲ سکنڈ میں پیدا ہوتا ہے ۔ اب اس کے فوراً بعد جہاں سورج غروب ہوگا اور مطلع صاف ہوگا تو چاند نظر آجا ئیگا،لیکن بہرحال نیا چاند تو ایک بار ہو چکا،اب یہ کہیں اور دوسرے یا تیسرے دن نیا چاند نہیں ہو سکتا۔ شریعت ِ اسلامی میں ایک چیز حکم ہوتی ہے اور دوسری منات الحکم،اسکے اعتبار سے مثلاً نماز کا معاملہ لیجئے تو ہم نماز کیلئے چونکہ قبلہ رخ ہو کر پڑھنا شرط ہے،چنانچہ کمپاس کی مدد سے ہر مسجد بناتے وقت اُس جگہ کا قبلہ طے کرتے ہیں اور گھڑی سے وہ وقت طے کرتے ہیں جو نماز کے پڑھنے کیلئے ائمہ نے قرآن و حدیث سے طے کیا ہے۔ یہ دونوں کام سائینسی نوعیت کے ہیں۔ اسی طرح آج سائینس ہی کی ایجادات ٹیلیفون کے ذریعہ نکاح ہو رہا ہے اور اب تو ای میل اور ایس ۔ایم ۔ایس کے توسط سے طلاق بھی صحیح قرار دی جارہی ہے ،پھر چاند کے معاملے میں ہم اُسی ٹیلیفون کی اطلاع کو قبول نہ کرنے کی کیا دلیل پیش کر سکتے ہیں؟
اس حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں البتہ عملاً بعض لوگ ایسا کرنے کی جسارت نہیں کر پاتے،یا تو اکثریت کے دباؤ سے،یا خاندان بھر میں ا کیلے پڑنے کے خوف سے،مذاق اُڑائے جانے کے ڈر سے یا عادت کے خلاف نہ جاپانے کی فطری کمزوری کے سبب،یا پھر محض پرانی روایت سے چمٹے رہنے کے باعث،مگرکیا ہمیں ایسے اہم مسئلہ میںجس پر امت کا اتحاد موقوف ہو اور رمضان کے روزوں کے معاملہ میں تو عید کے دن ،جب کہ روزہ رکھناحرام ہے،پھر بھی روزہ رکھنا پڑ جاتا ہو ،ایسی غیر اہم چیزوں کو خاطر میں لانا چاہئے یا مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ان تکلفات کو جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیںہے ،اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
اگر آج امت ِ مسلمہ ایک خلیفہ کے زیرِ سایہ ہوتی ،جو اسلام کے احکامات کو نافذ کر رہا ہوتا،تو کیا اس مسئلہ میں یا اس جیسے دیگر معاملات میں،امت کو علاقوں کی بنیاد پر اس طرح بانٹنا ممکن ہوتا؟ہمارے پچھلی صدی کے تمام اکابر علماء کا یہ متفقہ فیصلہ رہاتھا،کہ شریعت کے ہر معاملہ میں خلیفۂ وقت کاموقف واجب الاطاعت ہے ،بلکہ پہلی عالمی جنگ کے دوران جب جمعیۃ العلماء کا قیام عمل میں آرہا تھا تو اِس کے بانیوں نے یعنی شیخ الہند حضرت مولٰنا محمود الحسن صاحبؒ،شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد صاحب مدنیؒ،مولانامحمد علی جوہر ؒ اور حضرت مولاناابوالکلام آزادؔؒ نے اِس جمعیۃ کی تاسیس کی ضرورت کو یہ کہہ کر ضروری قرار دیا کہ اب خلافت کے خاتمے کے بعد،مسلمانان ِ ہند کے شرعی اعمال کی نگہداشت کو یقینی اور شرعاً صحیح رکھنے کیلئے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک ایسی شرعی شکل ہونا چاہئے جو ان شرعی ضروریات جیسے نماز ِ جمعہ کا قیام،روئیت ہلال وغیرہ کو صحیح نہج پر چلا سکے۔ اور واقعتاً ہوا بھی یہی،اگر آج خلافت قائم ہوتی، اور وہی علمائے حق ہمارے درمیان موجود ہوتے،تو کیا خلیفہ کے چاند دکھنے کے اعلان کو مسترد کرنا ہمارے لئے ممکن ہوتا؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں