کیا ایک اسلامی حکومت مسلمانوں کو پتھر کے دور میں واپس لے جائے گی؟
کیا ایک اسلامی حکومت مسلمانوں کو پتھر کے دور میں واپس لے جائے گی؟
آج اگر کوئی شخص مسلم دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے ماسوائے جہالت،غربت،کر پشن،انتشاراورخونریزی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ عالمی میڈیابہت سے واقعات اور کہانیاں چھاپتا رہتا ہے جن میں مسلمانوں کو جاہل،گنوار اور وحشی کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ اور وہ قوم جسے پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے اور جس کی گواہی اللہ تعالیٰ قران کریم میں یوں دیتا ہے : ’’ تم بہترین امت ہو ،جسے لوگو ں کے لیے نکالا گیا ہے کیونکہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر یقین ر کھتے ہوـ‘‘، آج پوری دنیا میں ذلیل و رسوا نظر آتی ہے۔
ماضی پر نظر ڈالنے سے یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ 3مارچ 1924 کو خلافت یعنی اسلامی ریاست کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کی وہ طاقت ان سے چھن گئی جس کی وجہ سے وہ دنیا میں سپر پاور تھے اور پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ تھے۔ خلافت کے انہدام کے ساتھ ہی مسلمانوں کی طاقت ریزہ ریزہ ہوگئی بلکہ مسلمان اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے اور مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کر دیا گیا ، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے خلافت کے دوبارہ قیام کی آواز زور پکڑچکی ہے جس میں شدت کی وجہ سے مغرب اور مغربی ذہن رکھنے والے مسلمانوں کا اس پکارکے خلاف نفرت اور غصہ کھل کر سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ اور وہ مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے دورِ خلافت پر مبنی مسلمانوں کے ماضی کو بد نما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ الفاظ ان لوگوں کی زبان پر عام ہیں کہ خلافت تو 1400 سو سال پرانا نظام ہے جو آج کے دور سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس کے لیے آواز بلند کرنے والے انسانیت کودوبارہ سے پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہ وہ ریاست تھی جو 800 سو سال تک دنیا کی تنہا سپر پاورتھی، جس نے انسانیت کوجہالت کے گڑھوں سے نکالا تھا،اور یہ انسانیت ایک بار پھر جہالت کے اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔ اس مضمون میں ہم ان شعبوں میں خلافت کے چند کارناموں اور خدمات پر روشنی ڈالیں گے جو آج امت کوسب سے زیادہ پریشان کیے ہوئے ہیں۔
آج رسول اللہ ﷺ کے امتی جنہوں نے اس حال میں آنکھ کھولی جب خلافت کو منہدم ہوئے تقریباً ایک صدی بیت چکی ہے، وہ خلافت کے دوبارہ قیام اور مسلمانوں کے دوبارہ عروج کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی بشارتوں کومان تو لیتے ہیں ، مگروہ اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح یہ خلافت دوبارہ مسلمانوں کو شان و شوکت بخشے گی۔ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے پاس جدیدترین ہتھیار موجودنہیں ہیں،جبکہ مغرب سیٹلائیٹ کے ذریعے سب کچھ کنٹرول کر لیتا ہے اور دنیا کا کوئی کونہ بھی اس کی آنکھ سے محفوظ نہیں ہے۔ مغربی ممالک کی صنعتی ترقی دیکھ کر ان کی آنکھیں چندھیا جا تی ہیں۔ روبوٹس،لیزر ٹیکنالوجی،میڈیکل سائنس میں نت نئی ایجادات اور خلاء کی تسخیر ان کا حوصلہ توڑ دیتی ہے اور رہی سہی کسر امت مسلمہ کی حالت ِزار پوری کر دیتی ہے جس کا نہ تو اس وقت عقیدہ محفوظ ہے نہ ہی ان کی عورتوں کی عزت، مسلمان نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو کر مقصدِ زندگی ہی بھول بیٹھے ہیں ،جبکہ برسرِ روزگار لوگ سارا دن صرف گھر کا چولہا جلانے کی فکر میں ہی مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے میں اگر مغرب سے متاثرایک شخص کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کا بھی ایک شاندار ماضی تھا اورایک دور میں وہ بھی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھے تو اسے یہ سب ایک خواب نظر آتا ہے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد نبیؐ نے جس ریاست کی بنیاد رکھی اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالی کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جانا تھا ۔ اُس ریاست کی اہم ضرورت منظم فوج کی تیاری تھی جواس نوخیز ریاست کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جانے کا بیڑا اٹھائے۔ لہٰذا ایسی فوج کی بنیا د ہجرت کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی جو ریاست کے خاتمہ تک یہی کام انجام دیتی رہی۔ غزوہ بدر ہو یا فتح مکہ، رومی سلطنت کا خاتمہ ہو یا تاتاریوں سے مقبوضہ علاقے واپس لینا، مسلمان بہت بہادری سے لڑے اور لوگوں کے دلوں پر ایسی دھاک بٹھائی کہ یورپین یہ کہتے ہوئے ہمت ہی چھوڑ بیٹھے کہ :’’مسلمانوں کی فوج ناقابلِ تسخیر ہے‘‘۔ مسلمان اِکا دُکالڑائی تو ہارے ہوں گے لیکن جنگ کبھی نہ ہارے تھے۔
خاص طور پر بزنطینی روم کو شکست مسلمانوں کا وہ کارنامہ ہے جس نے بڑے بڑوں کے دل دہلا دئیے۔ چونکہ مسلمان یہ جان چکے تھے کہ بزنطینیوں سے فیصلہ کُن معرکہ سمندر میں ہی ہوگا۔ جس میں فوجی اڈوں اور ایک طاقتوربحری فوج کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔ اس لیے شام اور مشرقی افریقہ میں جو 641ء تک خلافت کا حصہ بن چکے تھے بندرگاہیں تعمیر کی گئی اور649 ء تک1000 بحری بیڑے تیارکرلیے گئے۔ ریاست کی اہم بندر گاہوں ،خلیج فارس میں آبلہ اور سرافین، شمالی افریقہ میں تیونس اور مراکش میں سُس کے مقام پر کشتیاں بنانے کی فیکٹریاں تعمیر کی گئیں۔ جس کی وجہ سے بزنطینیوں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو اُس وقت بحری طاقت سمجھی جاتی تھا۔ 670 ء میں پہلا فوجی اڈہ جو کہ کینٹ،گھوڑوں،اونٹوں،آرٹلری،تلواروں اور گن پاوڈر پر مشتمل تھا موجودہ تیونس کے شہر قیروان میں تعمیر کیا گیا۔ سو سال کے اندر ہی یہ بندرگاہیں تجارت کا مرکز بن گئیں جس سے ریا ست کو معاشی طور پر بے انتہا فائدہ ہواجس کی وجہ سے لو ہے کی صنعت بلند ترین مقام پر پہنچ گئی ، جبکہ شیشے اور سرامکس کی صنعت نے بھی کافی ترقی کی۔ انہی معاشی اورفوجی پالیسیوں کی وجہ سے طارق بن زیاد نے 711ء میں سات ہزار کی فوج کے ساتھ جبرالٹر عبور کر کے سپین فتح کیا۔ وہی طارق بن زیاد جس نے ساحل پر اترنے کے بعد یہ کہتے ہوئے کشتیوں کو آگ لگوا دی تھی کہ فوج کے پاس اندلس کو فتح کرنے کے علا وہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
آج جبکہ مسلمان کبھی ایف ۱۶ طیاروں اور نیوکلئیر فیول کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں, دورِخلافت میں جب اسلامی فوج صلیبیوں سے نبرد آزما تھی توصلیبی خود لکھتے ہیں کہ جب وہ میدانِ جنگ میں تھے تو اچانک دھماکوں کی آواز آنا شروع ہو گئی تو وہ پریشان ہو گئے، مسلمان اس وقت بم بنا چکے تھے جس وقت صلیبیوں کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔
جہاں تک انٹیلی جنس کی بات ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی بنیاد بھی بدر کے موقع پر ہی رکھ دی تھی جب آپ نے لوگوں سے کفارکے ذبح کیے گئے اونٹوں کی تعداد پوچھ کر ان کی فوج کی تعداد کا اندازہ لگایا۔ اور اس سنت کو آنے والے خلفاء نے بہت زبردست طریقے سے استعمال کیا۔ جس کی ایک مثال قسطنطنیہ کی فتح میں نظر آئی، جس کی فتح کی بشارت رسول اللہ ا اپنی زندگی میں ہی دے گئے تھے۔ جب مسلم حکمران سلطان محمد فاتح نے ایک جاسوس کے ذریعے اس علاقے کی مٹی کے نمونے منگوائے تاکہ وہ قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیواروں کی مضبوتی جان سکے۔ جس کے بعد اس نے ایک توپ تیار کروائی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی توپ تھی۔ جس سے ان مضبوط دیواروں کو گرایا گیا اور قسطنطنیہ کو فتح کیا گیا۔جبکہ آج کی انٹیلی جنس صرف خلافت کے داعیوں کو روکتی ہے تاکہ ان کو اس خلافت کے قیام سے روکا جائے جو تمام مسلمانوں کی جان،عزت،زمین اور عقیدہ کی حفاظت کرے گی۔
خلافت کا مقصد وہی تھا جو رسول اللہ ﷺ کا مقصدِ بعثت تھا یعنی پوری دنیا میں اسلام کو نافذ کرنا کہ دنیا کاکوئی کونہ بھی اللہ تعالی کے دین سے روشناس ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مشہور یورپی مورخ ایڈورڈ گبنز کہتا ہے کہ ’’جس تیزی سے اسلام پھیل رہا تھا کہ چند صدیوں میں برطانیہ سے خلافت کا فاصلہ 250 میل رہ گیا تھا،اگر اسی تیزی سے اسلام پھیلتا رہتا تو بہت جلد ہی لندن کے رہنے والے عربی بولتے اور قران سیکھتے۔‘‘ یہ تھی اسلام کو پورے دنیا تک لے کر جانے کی فکر۔
عثمانی خلافت میں بھی فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور خلافت آذربائیجان،آرمینیا،البانیہ، سربیا، کروشیا، بوسنیا ہرزگووینا،کوسووو،قبرص اور روس کے جنوبی حصوں تک پھیل گئی۔ وہ وقت کیا مورخین کو یاد نہیں جب یہ ریاست تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ عثمانی خلافت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ خلافت کو جزیہ دیتا تھا۔ 1783ء میں جب پہلی بار امریکی بیڑے بین الاقوامی پانیوں میں اُترے تو دو سال بعد ہی عثمانی بحری فوج نے انہیں قابو کر لیا۔ 1793ء تک مزید12بحری بیڑے قابو میں کر لیے گئے۔ آخر کار 1795ء میں امریکہ عثمانی خلافت سے لاحق اس پر یشانی اور خطرے کی وج سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا جسے بربری ٹریٹی کا نام دیا گیا۔ بربر کا لفظ خلافت کے شمالی افریقہ کے ولایات الجیریا،تیونس اور تریپولی کے لیے استعمال ہوتاتھا اس معاہدے کی شرائط یہ تھیں:
۱۔اس معاہدہ کے مطابق امریکہ کو۹۹۲۴۶۳ ڈالر یک مشت ادا کرنے ہوں گے۔
۲۔قابو کی ہوئی امر یکی کشتیاں واپس کر دی جائیں گی اور امریکی بحری بیڑوں کو بحراوقیانوس اور بحرروم کے درمیان کشتیاں چلانے کی اجازت ہوگئی۔
۳۔اس کے بدلے میں امریکہ ۶۴۲۰۰۰ لاکھ ڈالر سونے کی صورت میں ادا کرے گا۔
۴۔امریکہ ۱۲ہزار ڈالر سالانہ ٹیکس سونے کی مد میں ادا کرے گا۔
۵۔ ۵۸۵۰۰۰لاکھ ڈالر گرفتار شدہ سیلرز کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔
۶۔ایک اعلیٰ معیار کا بحری بیڑا عثمانی خلافت کے لیے تیار کیا جائے گا جس کے تمام اخراجات امریکہ برداشت کرے گا۔
یہ معاہدہ تُرک زبان میں لکھا گیا جس پر امریکی صدر واشنگٹن نے دستخط کیے۔ یہ واحد امریکی سرکاری دستاویز ہے جو کسی بیرونی زبان میں لکھی گئی اور یہ واحد معاہدہ ہے جس پر امریکہ دستخط کر کے کسی دوسری قوم کو سالانہ ٹیکس دینے پر مجبور ہوا۔ یہ تھی اُس اسلامی ریاست کی طاقت جس نے آج کی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیا تھا۔
آج جس وقت بھی کفارکادل چاہتا ہے وہ رسول اللہ ا کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے خاکے بنا کر پوری دنیا میں چھاپتے ہیں، جس کے جواب میں امت سوائے چند جلوس نکالنے اور کڑہنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی۔ جبکہ خلافت کے آخری دور 1901ء میں، جب ریاست کمزور ہو چکی تھی، بر طانیہ اور فرانس نے توہین رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور فرانس نے ایک ڈرامہ بنایا جس میں رسول اللہ ﷺ کی توہین کی گئی تھی۔ خلیفہ عبدالحمید دوئم نے فوراََ فرانس کے سفیر کو طلب کیا اور اُسے دیر تک اپنے آفس میں انتظار کروایا۔ اُس کے بعد مکمل جنگی لبا س میں اس کے سا منے آیا اور زور سے اپنی تلوار میز پر ماری۔ فرانس کا سفیر یہ دیکھ کر فوراََ آفس سے نکل گیا اور اپنے ملک کو خلیفہ کے ارادے کے بارے میں باخبر کیا، جس پر فرانس نے ڈرامہ کی تشہیر روک دی۔ اس کے بعد برطانیہ نے وہ ڈرامہ دکھانے کی کوشش کی ۔ خلیفہ نے برطانیہ کے نام خط لکھا جس کے جواب میں برطانیہ نے کہا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور تما م ٹکٹیں بھی بک چکی ہیں اس لیے اس موقع پر ڈرامہ کو مؤخر کرنا ممکن نہیں ہے۔ خلیفہ عبدالحمید دوئم نے اسے یہ جواب دیا کہ اگر یہ ڈرامہ چلا تو میں برطانیہ کے خلاف جہادِاکبر کا اعلان کروں گا اور عرب وعجم کی فوج لے کر تم پر چڑھ دوڑوں گا،اس جواب کو سن کر برطانیہ کی ہمت بھی دم توڑ گئی جو اس وقت کی سپر پاور تھی جس کادعوی تھا کہ ہماری سر زمین پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔
خلا فت نے اپنے اس سنہری دور میں تکنیکی میدان میں بھی بہت ترقی کی اور وہ ٹیکنالوجی استعمال کی جس کا یورپ نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس دور میں اسلامی دنیا کے انجینئروں، دانشوروں اور تاجروں نے زراعت، معاشرت، انڈسٹری، قانون، لٹریچر، جہازرانی، فلسفہ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والے سابقہ کام کونہ صرف محفوظ کیا بلکہ بہت سی نئی جدتیں بھی دیں ۔
جب عباسیوں نے خلافت سنبھالی تو انھوں نے بغداد کودارلحکومت کی طرز پر تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا سکے۔ خلیفہ‘المنصور‘نے پوری دنیا سے انجنئیرزاور تعمیرات کے ماہرین کو اکٹھا کیا اور شہر کی تعمیر کے لیے منصوبے بنوائے۔ صرف مزدوروں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ بغداد دنیا کا پہلادائرہ نما شہر تھا۔ کچھ ہی عرصے میں بغدادنے ایشیا اور بحرِروم کو ملانے والی سب سے بڑی تجارتی منڈی کی حیثیت حاصل کر لی۔
۷۸۶ء سے ۸۰۴ ء تک ہارون الرشید کے دور میں بغداد قسطنطنیہ کے بعد دوسرا بڑا شہر تھا۔ یورپی قصبے، شہر اور آبادیاں بیرونی حملہ آوروں اور یلغار سے بچنے کے لیے چار کونوں والی دیواریں تعمیر کیا کرتے تھے جن کے اگر ایک کونے پر دبائو ڈالا جا تا تھادیوار گر جاتی تھی اور فوجیں اندر داخل ہو جاتی تھیں مسلمانوں نے یہ مسئلہ شہر کی گرد گول دیواریں بنا کر حل کرلیا۔
زراعت کے میدان میں ہونے والی ترقی اپنی مثال آپ تھی،پانی کی کمی نے عرب کی بنجر سر زمین کو وسیع صحرا میں تبدیل کر دیا تھا جس نے کبھی کوئی قابلِ ذکر اناج پیدا نہیں کیا تھا سوائے معمولی سی مکئی کے جو اُن کی اپنی زمین پر کاشت ہوتی تھی۔ بکھری ہوئی آبادی ہمیشہ درآمد شدہ غذا پر انحصار کر تی تھی۔ صرف مدینہ ہی اپنے کنوؤں اور ندیوں کی وجہ سے پورے صحرا میں سر سبز جگہ تھی۔ عباسیوں نے یہ مسئلہ سب سے پہلے دجلہ و فرات پر پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرکے حل کیا۔ اور علاقے کے نہری نظام کو نئی نہریں کھود کر وسعت دی۔ سب سے بڑی نہر دجلہ اور فرات کے بیچ میں بہتی تھی۔ اس نہر کو نہرِعیسیٰ کا نام دیا گیاجو کہ شام اور عراق کے درمیان کشتیوں کی گزرگاہ تھی۔ اسی کی وجہ سے بحر ہند اور خلیجِ فارس کے بحری راستے کھلے۔ اس کے علاوہ عباسیوں نے ان ندی نالوں اور پانی کے ذخیروں کی دوبارہ تعمیر کروائی جو کہ حجاج بن یوسف نے 706ء میں تعمیر کر وائے تھے۔ اس کی وجہ سے بغداد میں سے گندے جوہڑوں کا خا تمہ ہوا جوکہ ملیریا کا گڑھ تھے۔
عباسیوں نے آٹھویں صدی میں قدیم یونانیوں کے کام کے عربی میں ترجمے کاسب سے بڑا منصوبہ شروع کیاتاکہ ان کا کام ضائع نہ ہو جائے۔ یہ بہت مشکل‘ کٹھن اور صبرآزما کام تھا۔ بیت الحکمہ کے نام سے مکتب کی بنیاد صرف اسی مقصد کی غرض سے رکھی گئی۔ ترجمہ کے کام نے ریاست میں صنعت کی حیثیت اختیار کر لی اور مسلمان دانشور وں نے وہ ایجادات کیں جس سے آج تک تمام انسانیت مستفید ہو رہی ہے۔ تحقیقی ادارے کھولے گئے جنہوں نے،
Humanities, Sciences, Mathematics, Astronomy, Medicine, Chemistry, Zoology, اور Geography
میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں۔ مسلم سائنسدانوں، دانشوروں اور ماہرین نے قدیم یونانی اور فارسی تہذیبوں کے کام کا ترجمہ کیا جس میں فیثاغورث،ارسطو اور سقراط کا کام شامل ہے۔ ان تمام کاموں کو ایک جگہ پر جمع کیا گیا جس کی وجہ سے بغداد کو پوری دنیا میں علم وتحقیق کے گڑھ کی حیثیت حا صل ہو گئی۔
مسلمانوں نے اندلس میں تقریباََ 800 سال حکومت کی۔ مغربی مورخین کے مطابق اس وقت کے یورپی بادشاہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے اور یہی یورپی مورخین لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اندلس میں بہت مشکل سے کوئی اَن پڑھ کسان ملتا تھا۔ قرطبہ جو اندلس کا دارلحکومت تھا صرف اس میں اس وقت 800 سکول تھے اور وہاں کے حکمرانوں کی نجی لائبریریوں میں چھ لاکھ سے زائد کتب موجود تھیں۔ اس کے علاوہ بغداد، قرطبہ، استنبول اور دمشق کی یونیورسٹیاںکسی سے ڈھکی چھپی نہیں جہاں پر یورپی بادشاہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے خلفاء کے احسان مند ہوتے تھے۔
طب
کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سرجری کے لیے ہی بیش بہا تحقیق اور آلات کی
ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے یہ اوزار دسویں صدی میں ہی تیار کر لیے تھے جن کی
تعداد 200 سے زائد تھی جو آج بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ فرانس کی یونیورسٹی میں اٹھارویں صدی میں
طالبعلموں کوطب کی جو کتاب پڑھائی جاتی تھی اس کا نام "قانون فی الطب" تھا۔ یہ کتاب گیارہویں صدی میں مسلمانوں نے لکھی
تھی۔ مسلمان ان یورپی ممالک سے سات سو سال آگے تھے جو آج اپنے آپ کو اس فن کا بانی سمجھتے ہیں۔
آٹوموبیلز میں ترقی کم بسچن انجن میں تحقیق سے ممکن ہوئی ہے۔ ایک ایسی مشین جس کے انجن میں تیل کے جلنے سے پسٹن حرکت کرتے ہیں جس کی بدولت آٹو موبیل حرکت کر تی ہے۔ یہ برطانوی سلطنت کے دور میں ممکن ہوا تھا جب بھاپ اور کوئلوں کی مدد سے پسٹنز کو حرکت میں لایا گیا جس کی وجہ سے روٹری انجن وجود میں آیا۔ اس تمام کام کی بنیادبارہویں صدی میں الجزری کے کام سے عبارت ہے جب اس نے کرینک شافٹ انجن دریافت کیا جس میں سلنڈر اور راڈز کی مدد سے روٹری موشن پیدا کی گئی۔وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے اس تمام عمل کو مشین کی شکل میں اکٹھا کیا۔
پیراشوٹ ایک ایسی چیز ہے جوکہ فضاء کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی شے کی حرکت میں کمی لاتا ہے۔ نوویں صدی میں ابن فرناس نے ابتدائی نمو نہ بنایا۔ اُس نے قرطبہ کی ایک مسجد کے مینار سے "پر" نما ایک کپڑے کے ساتھ چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے گرنے کے عمل میں کچھ رکاوٹ پیدا کر سکے لیکن اس کو معمولی زخم آئے۔ بعد میں پیراشوٹ بنانے میں جدت آئی اور لینن کے کپڑے سے لکڑی کے فریم "پر" بننے لگے۔ اور اُس کے بعد سلک کے کم وزن اور زیادہ طاقت کی وجہ سے پیراشوٹ بنانے کے لیے دوہری سلک کا استعمال ہونے لگا۔
اللہ
تعالی کی عبادت اور شکر گزاری کی طلب نے مسلمانوں کی بہت سی ایجادات کی طرف
رہنمائی کی۔ پنجگانہ نمازکے اوقات، قبلہ کی سمت اور رمضان کا تعین، دراصل ستاروں اور چاند
کی سمتوں اور ادوارکی صحیح نشاندہی چاہتاہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں نے تحقیق اور
مشاہدات کے لیے ا ٓلات دریافت کرنا شروع کیے۔آج بہت سے نیویگیشنل سٹارز کے نام اس وجہ سے عربی میں ہیں جیسا کہ:
Acamar, Baham, Baten, Kaitos, Caph, Dabih, Furud, Izar, Lesath, Mirak, Nashira, Tarf and Vega
مسلمانو ں نے اجرام فلکی کے علم میں بہت سی خدمات انجام دیں اور آخر کار ایک ایسٹرونومیکل کلاک تیار کیا۔اس طرح سورج اور چاند کی حرکت کومدِنظر رکھتے ہوئے ابوالریحان البیرونی نے دسویں صدی میں ایک مکینیکل کیلنڈر تیار کیا جو کہ گئیر اور پہیوں پر مشتمل تھا جو گراری کے ذریعے جڑے ہوئے تھے۔ اس ڈیزائن پر تقی الدین نے پندرہویں صدی میں مکینیکل گھڑی تیارکی۔ قبلہ کی صحیح سمت کے تعین کے لیے کمپس بنایا گیا۔ مسلمانوں نے ایسے کمپس بھی تیار کیے جو کہ چاروںسمتوں کی نشاندہی بری اور بحری نقشوں پر کرتے تھے۔
مسلمانوں نے دنیا کو ونڈ مل کے استعمال سے متعارف کروایا جو ہوا کی طاقت سے توانائی پیدا کرتی تھی۔ جس کے ذریعے زرعی زمین کو سیراب کیا جاتا تھا اور اجناس کو پیساجا تا تھا۔ جبکہ مغرب نے یہ ٹیکنالوجی مسلمانوں کی ایجاد کے پانچ سو سال بعد اپنائی۔ نویں صدی میں مسلمان ٹریولنگ چیک کا نظام اپنا چکے تھے۔ اُس وقت جب کوئی مسلم تاجر بغداد سے نکلتا تھا تو وہ چین جا کرٹریولنگ چیک پیش کرکے پیسے وصول کر سکتا تھا۔
اسلام ایک منفرددین ہے جسے اللہ تعالی نے نازل فرمایا جو افراد اور معاشرے دونوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالی خالقِ کائنات کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ خلیفہ اللہ تعالی کے سامنے اُن سب مسائل کا جوابدہ ہو گا جو خلافت کے شہریوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے امور پر نگہبان بنایا گیا اور وہ ان سے بے خبر رہے اور ان کے مسائل اور ضرورتوں کی طرف توجہ نہ دے، توقیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف توجہ نہیں دے گا اور اس کی ضرورت کو پورا نہیں کرے گا‘‘۔
امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرے۔ ان میں سے ایک اہم ذمہ داری صحت کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو مدینہ کے حاکم کے طور پر ایک طبیب تحفہ میں دیا گیا تو آپؐ نے اسے مسلمانوں پر مامور کر دیا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے تحفے میں دیے گئے ڈاکٹر کو مسلمانوں پرمامور کردیا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحت کی سہولتیں مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ دورِخلافت میں بھی اس کو بنیادی ذمہ داری سمجھا گیا۔ ریاست میں اعلیٰ درجہ کے ہسپتال اور ڈاکٹرز تھے جس میں بغداد، دمشق، قاہرہ، یروشلم، اسکندریہ، قرطبہ، سمرقند اور بہت سے علاقے شامل ہیں۔ صرف بغداد میں ہی 60 ہسپتال تھے جہاں پر ان ڈور اور آؤ ٹ ڈور مریضوں کے لیے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ تھے اور ایک ہزار سے زائد فیزیشن موجود تھے۔
المنصوری ہسپتال جو کہ 1283ءمیں قاہرہ میں تعمیر کیا گیا،آٹھ ہزار بستروں پر مشتمل تھا۔ ہر مریض کے لیے دو اٹینڈنٹ تھے جو مریض کے بستر پر اس کو ہر طرح کا آرام اور سہولیات مہیا کرنے کے ذمہ دار تھے۔ ہر مریض کے لیے الگ برتن اور بستر تھا جبکہ مریضوں کو دوائیاں اور کھانا مفت فراہم کیا جا تا تھا۔ گاؤں کے لوگوں اور معذور افراد کے لیے الگ سے موبائل ڈسپنسری اور کلینک تھے جو ان کو مکمل علاج کی سہولتیں فراہم کرتے تھے۔ خلیفہ المقتدر باللّہ نے اپنے دور میں یہ حکم بھی جاری کیا ہوا تھا کہ ہر موبائل یونٹ کچھ وقت کے بعد ہر گاؤں جایا کرے گا اور وہاں پر کچھ دن قیام بھی کیا کرے گا۔
مسلمان علاقے خوشحال تھے اور غربت وافلاس کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا۔ اس کی ایک مثال خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور سے ملتی ہے جب انہوں نے اپنے نمائندے یحییٰ بن سعد کو افریقہ بھیجا کہ وہ صاحبِ نصاب سے زکوۃ لیں اور اُسے مستحقین میں تقسیم کریں تو انہیں پورے افریقہ میں ایک بھی زکوٰۃ کا مستحق نہ مل سکا۔ یہ تھی اس خلافت کے امراء کی امت کے لیے فکر اور عوام کی خوشحالی کا معیار جب اس کے برعکس آج کے افریقہ کی حالتِ زار ہمارے سامنے ہے۔آج اسی افریقہ میں ہر دو سیکنڈ بعد ایک بچہ بھوک کی وجہ سے مرتا ہے۔
اسلامی ریاست کے خلفاء اللہ تعالی کے اس فرمان کو ریاست کا مقصد بنائے ہوئے تھے کہ ’’ آپؐ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘اور ’’تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اس لیے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد انہیں لُوٹا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی لوگو ں کو ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ جس کی واضح مثال رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں فتحِ مکہ کے بعد مشرکین سے برتاؤ ہے۔ اسی طرح کی مثالیں خلافت راشدہ کے دور میں نظر آتی ہیں۔ خالدبن ولیدؓ نے ایک علا قے کو فتح کیا تو وہاں پر بہت ہی غریب اور معذور لوگ قیام پذیر تھے۔ آپ ؓ نے خلیفہِ وقت ابو بکر صدیقؓ کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو ابوبکرؓ نے حکم دیا کہ جب تک یہ لوگ اسلامی ریاست میں رہیں گے اس وقت تک ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اور جتنی دیر وہ خلافت میں رہیں گے بیت المال سے ان کی امداد کی جائے گی اور ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ یہی برتاؤ مفتوح علاقے کے لوگوں کے ساتھ بعد کے دور میں بھی جاری رہا۔ خلافت نے نہ صرف مسلمانوں کو تحفظ دیا بلکہ غیرمسلم،یہودی اور عیسائی بھی خلافت میں پناہ لیتے تھے۔ 1492ء میں اندلس پر جب عیسائی قابض ہوگئے تو عیسائیوں نے یہودیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ تو اس وقت خلیفہ بایزیدالثانی نے یہ اعلان کیا کہ ان یہودیوں کو مسلمان سر زمین پر خوش آمدید کہا جائے اور خلافت ان کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اُس وقت کے قسطنطنیہ اورآج کے استنبول میں وہ یہودی محلے موجود ہیں جہاں پر ان یہودیوں نے سکونت اختیار کی تھی۔
یہاں پر اسلامی ریاست کا غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کو بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آج جو برتاؤ مسلمانوں کے ساتھ مغربی سر زمین پر کیا جا رہا ہے وہ قابلِ بیان نہیں ہے لیکن اس سے آپ سب لوگ واقف بھی ہیں۔میں یہاں پر چند مثالیں ان برتاؤ کی رکھ رہا ہوں جو اسلامی ریاست نے اپنے غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کیا۔
"عہدنامہ" ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں سلطان محمد الفاتح نے یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق کا تعین کیا۔ سلطان محمد فاتح وہ شخص تھا جس نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی بشارت کو پورا کیا۔ سلطان فاتح ایک عظیم اور نڈر خلیفہ سلطان مراداول کا پوتا تھا جس نے بلقان (بالکن) کے علاقوں کو اسلام کے لیے کھولا تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ 1389 ء میں سربوں کو کوسووہ میں شکست دینا ہے۔ سلطان فاتح کے والد مراد دوم نے کوسووہ میں ایک اور جنگ لڑکر بوسنیا کو خلافت میں شامل کیا۔ سلطان محمد فاتح نے اپنے دادا اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس پورے علاقے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔
"عہدنامہ" ایک ایسا واضح اور قطعی معاہدہ ہے جس نے اسلامی ریاست کے اندر رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق واضح کر دیے۔ وہ انصاف جو خلافت نے بوسنیا کے عیسائیوں کے ساتھ 1439ء میں کیا،اگر اس کو عیسائیوں کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے موازنہ کیا جائے جو 39 سال بعد سپین میں مسلمانوں کے سا تھ کیا گیا جہاں ان کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ دین چھوڑ دیں یا یہ علاقہ چھوڑ دیں،تو ایک عادل شخص مسلمانوں کی اعلیٰ روایات سے انکار نہ کر سکے گا۔ یہ عہد نامہ کچھ اس طرح سے تھا:’’ میں سلطان محمدیہ حکم دیتا ہوں کہ کوئی بھی شخص ان کو نہ توتنگ کرے گااور نہ ہی ان کے گرجا گھروں کو نقصان پہنچائے گا۔ میری سلطنت میں انہیں سکون سے رہنے کی اجازت ہے۔ اور جو مہاجر بن چکے ہیں وہ یہا ں محفوظ ہیں۔ انہیں واپس جانے اور اپنے مذ ہب کو اختیار کرتے ہوئے میری سلطنت کے کسی بھی علاقے میں سکونت اختیار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ شاہی خاندان کے لوگ ہوں یا میرے وزراء،نوکر ہوں یا سلطنت کے شہری کسی کو بھی ان کی بے حرمتی اور انہیں تنگ کرنے کاکوئی اختیار حاصل نہیں۔ کسی کو بھی ان کی زندگی چھیننے، ان کو اذیت میں ڈالنے یا چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ بلکہ اگر وہ ریاست کے باہر سے کسی شخص کو لانا چاہیں تو میری سلطنت میں اس کی اجازت ہوگی۔
اس کے علاوہ1845ء میں جب آئرلینڈ میں قحط کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ عثمانی سلطان خلیفہ عبدالمجید اول نے اپنے اس ارادے کا اعلان کیا کہ وہ آئرلینڈ کے کسانوں کی مدد کے لیے 10000پاؤنڈ بھیج رہا ہے لیکن ملکہ وکٹوریہ نے اُسے صرف 1000 پاؤنڈ بھیجنے کی درخواست کی کیونکہ خود ملکہ نے صرف ۲۰۰۰ پاؤنڈ بھیجے تھے۔ خلیفہ نے ۱۰۰۰ پاؤنڈ کے ساتھ چپکے سے غلہ سے لدے ہوئے تین بحری جہاز بھی بھجوا دیئے۔ برطانیہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن عثمانی ملاح انہیں ساحلوں پر چھوڑ کر چلے گئے۔ یہاں پر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس زمانے کے دس ہزار پاؤنڈ کی مالیت آج کے8 لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے جو کہ 16 لاکھ 83 ہزار280 امریکی ڈالرز کے برابر ہے۔ جس کے مقابلہ میں ملکہِ وکٹوریہ کی دی ہوئی رقم کی مالیت آج کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پائونڈ یعنی 3 لاکھ 36ہزار 656 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اور یہ مدد اور سخاوت اس موقع پرکی گئی جس وقت مغربی تاریخ دانوں کے مطابق خلافت کے زوال کا دور تھا جبکہ خود سلطان عبدالمجیدکا شمار بھی مشہور عثمانی خلفاء میں نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا سلوک عثمانی خلافت نے تُرکی میں رہنے والے یہودیوں کے ساتھ کیا جس کی تصدیق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کی۔ جب 1877ء میں ایک امریکی ٹیم عثمانی خلافت کے یہودیوں کے ساتھ سلوک کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے بھیجی گئی۔ نیویارک ٹائمزکے 23 اگست 1877 کے ایڈیشن کے مطابق ’’ امریکی وزیر نے کہا کہ ترکوں کے عدل نے اسے یہ ماننے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہودیوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک دوسری مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں عثمانیوں نے کیا اور یہ تاثر غالب ہے کہ عثمانی سلطنت کابر تاؤ عیسائیوں کے برتاؤ سے بہتر تھا۔‘‘ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کویہ خط ترکی میں موجود اپنے وزیر کی طرف سے موصول ہوا جس میں بہت ہی دلچسپ انکشافات کیے گئے تھے۔ یہودیوں کی عثمانی سلطنت میں کل تعداد 5 لاکھ تھی۔ اس خط کے مطابق عثمانی سلطنت میں یہودیوں کو مذہب کے حوالے سے ایک الگ قوم کی پہچان حاصل ہے اور ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار حاصل ہے۔اُن کا روحانی امام ربی اور باشی کو مکمل اثرورسوخ حاصل ہے اور وہ آزادی سے اپنے امور سر انجام دیتا ہے۔
یہ ہیں خلافت کے سنہری دور کی چند جھلکیاں ۔ وہ خلافت جس نے کفار کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ مسلمانوں سے بہتر عدل کسی قوم نے نہیں کیا۔ آج وہ لوگ جو اس خلافت کے دوبارہ قیام کو دقیانوسی کہتے ہیں اور ایک فرسودہ نظام سمجھتے ہیں وہ خود ہی جہالت اور اندھیر نگری میں رہ رہے ہیں۔ اگر مسلمان اُس زمانے میں گھوڑوں اور اونٹوں کی مدد سے تین براعظموں پر حکومت کر رہے تھے تو آج کے جدید دور میں جب مسلمان ایٹمی قوت ہیں، معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں ‘ بحری اور بری گزرگاہیں ان کے زیر اثر ہیں تو آج کیوں یہ سپر پاور نہیں بن سکتے۔ انشاءاللہ وہ وقت بہت قریب ہے جب ایک اسلامی ریاست اس دنیا کے نقشے پر ابھرے گی اور دوبارہ سے دنیا کی سپر پاور بنے گی ۔ ضرورت صر ف اس امر کی ہے کہ ہم ان آخری مراحل میں جو اگرچہ کٹھن ہیں پوری قوت سے اس کے قیام میں حصہ ڈالیں تاکہ وہ سعادت ہمیں جلد نصیب ہو جائے جس کی رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی ہے:
((ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ))
’’پھر دوبارہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی۔‘‘
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں