واقعہ کربلا سے کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟
واقعہ کربلا سے کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟
بے شک کربلا کا واقعہ اسلام کی تاریخ کا انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کی آنکھوں کو نم کرتا رہا ہے۔ جہاں اس واقعے نے پورے عالمِ اسلام کو ہلا کر رکھ دیاوہاں اس واقعے نے امتِ مسلمہ کو اہم سبق بھی عطا کیا ہے۔ تاہم واقعہ کربلا کے متعلق صحیح نقطہ نظر اختیار کرنے اور اس واقعے سے حاصل ہونے والے سبق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی احکامات کی روشنی میں اس واقعے کے پس منظر کودیکھا جائے اور اسلام کے حکمرانی کے اصولوں پر نظر ڈالی جائے۔
سب سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے حکمران کی تقرری کا کیا طریقہ مقررکیا ہے ۔ اسلام نے حکمران کے تقرر کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہ صرف اور صرف بیعت کا طریقہ ہے۔اسلام میں امت ایک شخص کو اس شرط پر بیعت دیتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کو قانون کے طور پر نافذ کرے گااور اس بیعت کے ذریعے ہی وہ مسلمانوں کا خلیفہ بنتا ہے۔ بیعت امت کا ہی حق ہے۔ امت جسے چاہتی ہے بیعت کے ذریعے اپنا خلیفہ مقرر کرتی ہے۔ چاروں خلفائے راشدین کو بیعت کے ذریعے ہی مقرر کیا گیا۔ اور وہ اسی وقت خلیفہ بنے جب لوگوں نے انہیں رضامندی کے ساتھ بیعت دے دی۔
اسلام میں بادشاہت کا کوئی تصور نہیں ۔ اور نہ ہی اسلام میں حکمران کسی کو اپنی طرف سے ولی عہدبنا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص اقتدار پر قبضہ کر لے اورامت نے اسے بیعت نہ دی ہو اور حکمران تسلیم نہ کرتی ہو ،اسے ہٹانا امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد ابوبکرؓ مسلمانوں کے خلیفہ بنے ، اس کے بعد یہ خلافت عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ اور پھر حسنؓ کو حاصل ہوئی۔ امام حسنؓ امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہو گئے اور یوں امیر معاویہ مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے۔ لیکن امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کے حق میں بیعت لینا چاہی ۔ تاہم اس وقت جو صحابہ زندہ تھے انہوں نے ولی عہدی کے اس عمل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ نبی ﷺ کی سنت نہیں بلکہ قیصر و کسریٰ کی سنت ہے۔ امیر معاویہ کے وصال کے بعد ہونا یہ چاہئے تھا کہ امتِ مسلمہ کے سرکردہ لوگوں کے مشورے سے نیا خلیفہ مقرر کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہونے دیا گیا کیونکہ یزید نے شام کے علاقے میں اپنے والد کی جگہ اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت مسلمانوں کے تین سیاسی مراکز تھے۔ مدینہ منورہ، کوفہ اور شام ۔ مدینہ منورہ اور کوفہ کے لوگ حضرت امام حسین کے ساتھ تھے اور انہیں خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے جبکہ شام کے لوگ یزید کے زیرِ نگیں تھے۔ جو کہ امیر معاویہ کے دور میں طویل عرصے تک خلافت کادارالحکومت رہا تھا۔ حضرت امام حسینؓ کی کوشش تھی کہ مدینہ اور کوفہ کے لوگوں کی بیعت لے کر اکثریت کو حاصل کر لیا جائے اور یوں یزید کی حکمرانی کو چیلنج کیا جائے جس نے اقتدار پر قابض ہو کر امت کا حق غصب کر لیا تھا۔ حضرت امام حسینؓ یہ دیکھ رہے تھے کہ یزید اسلام کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ایک ایسا سلسلہ شروع کر رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں خلافت موروثی حکمرانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ جس کا لازمی نتیجہ اسلامی ریاست کی کمزوری کی صورت میں نکلے گا۔ وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ اگر اسلام کی یہ گرہ کھل گئی تو پھر اسلام کے باقی احکامات سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ چنانچہ یزید کو چیلنج کرنا انتہائی ضروری تھا۔ حضرت امام حسین ؓنے اپنی قوت میں اضافے کے لیے کوفہ کے سفر کا ارادہ کیاکہ جس کے لوگوں نے حضرت امام حسین کو اپنی طرفداری کا یقین دلایا تھا ۔ یزید نے حضرت امام حسینؓ کی اس کوشش کو روکنے کی کوشش کی۔ وہ کوفہ کے راستے میں ہی تھے کہ کوفہ کے والی ابنِ زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر نے انہیں روک لیا ۔ آپ کے ساتھ آپ کے خاندان کے تقریبا ً100افراد بھی تھے۔ ابنِ زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر نے مصالحت کے تمام رستے بند کر دیے اور آپ سے زبردستی اطاعت کرانے کی کوشش کی ۔ لیکن حضرت امام حسین نے اس کی اطاعت کرنے اور گرفتاری دینے سے انکار کر دیا ۔ اور جرآت مندی سے لڑنے کو ترجیح دی۔ ابنِ زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر نے اس بات کی بھی پرواہ نہ کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے خلاف تلوار نکال رہا ہے کہ جس کے متعلق رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے جو حسین سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا"(ترمذی ۳۷۷۵، ابن ماجہ ۱۴۴، احمد ۱۷۱۱۱؛ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)۔ ایک مختصر سا قافلہ ایک لشکر کا مقابلہ کہاں تک کر سکتا تھا۔اور یوں کربلا کا میدان صحابی و نواسہ رسول کا مقتل بن گیا۔ اس واقعے نے یزید کو ظلم و جبر کا استعارہ بنا دیا اور حضرت امام حسین پوری امتِ مسلمہ کے سامنے ظلم و جبر کے سامنے سر نہ جھکانے کی اعلیٰ مثال بن گئے۔
واقعہ کربلا میں موجود سبق:
سامعین کربلا کا واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے کہ جسے محض قصے کہانی کے طور پر بیان کیا جائے اور اسے محفلوں کوگرمانے اور جذبات کو ابھارنے کی نظر کر دیا جائے۔ اصل چیز وہ سبق ہے جو ہمیں اس واقعے سے حاصل ہوتا ہے ۔ امام حسین اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیں یہ سبق دے گئے کہ اسلام کے قوانین میں کسی ایک قانون کا بگاڑ بھی ایک مومن کے لیے قابلِ قبول نہیں ہونا چاہئے۔ یزید کے اقتدار پر قبضے کو تسلیم کرنے کا مطلب اسلام کے اِس اصول میں بگاڑ کو تسلیم کرنا تھا کہ بیعت امت ہی کا حق ہے اور وہ جسے چاہتی ہے اپنی رضا مندی اور اختیار سے خلیفہ مقرر کرتی ہے۔ امام حسین اس اصول کی پامالی کے خلاف کھڑے ہوئے ۔ لیکن آج اسلام کا ایک حکم نہیں بلکہ پورے کا پورا اسلام پامال ہو رہا ہے۔ آج پوری مسلم دنیا پر ایسے حکمران مسلط ہیں جنہوں نے اسلام کے نظامِ حکومت کے کسی ایک قانون کو تبدیل نہیں کیا بلکہ پورے کے پورے نظامِ خلافت کو ہی معطل کر رکھا ہے اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلامی نظامِ خلافت کی واپسی کو روکنے کے لیے کفار کے ساتھ مل کر ایک جنگ برپا کر رکھی ہے ۔ اگر ہم حضرت امام حسین کی زندگی کو اپنے لیے مثال سمجھتے ہیں تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم آج کے جابر حکمرانوں کو چیلنج کریں ۔ لیکن اگر یہ سنگین صورتِ حال ہمارے اندر جنبش پیدا نہیں کرتی تو پھر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہے کہ کیا ہم واقعی حضرت امام حسین سے محبت کے دعویٰ میں سچے ہیں !؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں