کراچی کا اصل مسٔلہ، انتظامی یا کچھ اور؟

 

کراچی کا اصل مسٔلہ ،انتظامی یا کچھ اور؟

اس حقیقت   کو تسلیم کرنے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ  کراچی وہ شہر ہے جو ناصرف پاکستان بلکہ  اس  پورے خطے کا  سب سے طاقتور صنعتی اور تجارتی مرکز بننے کی اہلیت  رکھتا ہے ۔ اور اس بات  میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ  یہ وہ شہر ہے جو سب سے بڑھ کر سیاسی   جماعتوں کی سیاست کی  بھینٹ چڑھا ہے ۔ اس بات کی  تازہ ترین مثال  پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان جاری ایک مکالمہ ہے کہ   6ستمبر 2020 کو جب  وزیر اعظم عمران خان  نے کراچی کے لئے    1,113 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تو  پیپلز پارٹی  کے چیئر مین نے اگلے ہی دن  یہ   بیان دیا   کہ اس میں سے 800 ارب روپے صوبائی حکومت یعنی پیپلز پارٹی کی   جانب سے ہیں  جب کہ صرف 300 ارب روپے وفاق   کی طرف سے ہیں۔ بلاول   زرداری بھٹو کے اس بیان پر  وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی امور  اسد عمر  نے بلاول   زرداری کی   تردید کرتے ہوئے  کہا  کہ 1,113 ارب روپے میں سے 62 فیصد یعنی  تقریباً 690 ارب روپے وفاق کی جانب سے ہیں جب کہ بقیہ  38  فیصد  یعنی423 ارب روپے  صوبائی حکومت  کی طرف سے لگائے جائیں گے ۔پھر  اس پر  سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب   نے اسد عمر  کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا  کہ جو بات بلاول   زرداری  نے   کہی ہے دراصل  وہ سہی ہے نہ کہ اسد عمر کی بات ۔  اور یہ سب کچھ  اس وقت ہو رہا ہے  کہ جب پینے کے صاف پانی کی عدم موجودگی ، کوڑے کے ڈھیروں   ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دیگر بہت سے مسائل سے دوچار کراچی کی  پہلے سے ہی تنگ آئی ہوئی عوام اب   بارشوں کے باعث  ایسی  زبوں  حالی  کا شکار سے کہ ان کا کاروبار زندگی ٹھپ  ہوا پڑا ہے۔ 

لیکن کراچی کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں کراچی  جن مسائل سے دوچار ہوتا آیا ہے سیاسی جماعتوں کی آپس میں  "بلیم گیم "ہی  دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔  مئیر کراچی ہو   ، سندھ حکومت ہو ،   یا پھر  وفاقی حکومت ، ہر ایک کے پاس دلائل کے انبار موجود ہیں کہ وہ خود کیوں ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہیں ۔  کراچی کے ان  ابتر حالات کے پیش نظر یقیناً ہر مخلص پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور ہر ایک کی آنکھیں اس کے مستقل حل کی متلاشی ہیں۔

اسد عمر نے ۷ ستمبر ۲۰۲۰کو دیئے گئے  بیان میں اٹھارویں آئینی  ترمیم کو  کراچی کے حالات  کی  بہتری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔    لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اٹھار ویں ترمیم سے پہلے  کیا  کراچی کے  حالات بہت اچھے تھے  کہ یہ کہا جا سکے  کہ   محض اس  ترمیم کو ختم کر کے  کراچی   ایک دبئی جیسا ترقی یافتہ شہر   بن جائے گا؟     پچھلی کئی دہائیوں پر محیط    کراچی کے  سیاسی حالات  کا ایک طائرانہ جائزہ  لینے پر اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو دراصل کراچی کی ترقی میں  صحیح معنوں میں رکاوٹ ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی میں حکومتی اقتدار  تہہ بہ تہہ تین سطحوں میں منقسم ہے یعنی  وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور شہری حکومت ۔ حکومتی اقتدار کی اس  تہہ بہ تہہ تقسیم کے باعث     ان مختلف سطحوں کے حکومتی  عہدہ داران بہت  سے معاملات  کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار  دے دیتے  ہیں اور پھر ان معاملات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔   لہٰذا جب کوئی بڑا مسٔلہ  پیدا ہوتا ہے اور ایلکٹرانک  یا سوشل میڈیا پر نمایاں  بھی ہو جاتا ہے تو حکومتی عہدہ داران  کی جانب سے ایک دوسرے کی پارٹی پر وہی روائیتی الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

 دوسرا مسٔلہ یہ ہے کہ ان مذکورہ بالا    تین سطحوں پر مشتمل حکومتی عہدوں کے لئے  الگ الگ انتخابات  منعقد ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں   مختلف جماعتوں کے نمائندے    منتخب ہو کر ان عہدوں پر فائز ہو جاتے   ہیں۔  الگ الگ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے کی بدولت اپنی جماعت کی  دوسری جماعتوں پر برتری  فطری طور پر       ہمیشہ ان حکومتی عہدہ داران کے پیش نظر رہتی ہے جو پھر اکثر   و بیشتر  اپنی جماعت کی  تشہیر اور دوسری جماعتوں  کی تحقیر      پر بھی منتج ہوتی  نظر آتی  ہے۔    ان سیاسی جماعتوں اور ان کے عہدا داران  کے مابین  اس سیاسی  رسہ کشی  کے نتیجے میں  شہر کے مسائل اپنی جگہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔  آج اس وقت بھی   کراچی شہر میں موجود ایم کیو ایم ، صوبے میں پی پی پی اور وفاق میں   موجود پی ٹی آئی کی منتخب شدہ  حکومتوں کا   ایک دوسرے کے ساتھ کم و بیش کچھ  ایسا ہی  معاملہ ہے۔

تیسرا  مسٔلہ  یہ ہے کہ کراچی  میں مہاجر ،  سندھی، پنجابی ،  پشتون اور بلوچ جیسی   بہت سی لسانی اور علاقائی  برادریاں بھی آباد ہیں  ۔ اگر ایسی کسی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص منتخب ہو کر آ جائے جو کہ  لسانی یا نسلی تعصب کا شکار  بھی ہو تو شہر میں باقی  برادریوں  کے حقوق داؤ پر لگ جاتے ہیں اور لسانی و علاقائی عصبیت پروان چڑھتی ہے  اور امن و امان کی صورتحال شدید متاثر ہو جاتی ہے۔

ان تمام خصوصیات کا تعلق اس خاص   وفاقی نظام حکومت سے ہے جو اپنے فلسفے یعنی فیڈرلزم کے مطابق      حکومتی اختیار کی مختلف سطحوں میں تقسیم پر یقین رکھتا  ہے۔   اور یہ تمام  مسائل ایسے  ہیں جو اٹھارویں ترمیم کے ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں اپنی جگہ پر بدستور  قائم نظر آتے ہیں۔یہاں تک کے یہ مسائل پارلیمانی طرز کے وفاقی نظام اور صدارتی طرز کے وفاقی نظام کے درمیان بھی مشترک ہیں۔  پھر یہ بھی کہ  یہ مسائل محض نظری نہیں  ہیں بلکہ  ان کے  عملی اظہار کا مشاہدہ  ہم گاہے بگاہے  کرتے رہتے ہیں   ۔   اگر ہم  کراچی اور سندھ کی ہی مثال لے لیں تو  کچھ ہی عرصہ پہلے  گندم کی قلت کے مسٔلہ نے اپنا سر اٹھایا تھا ۔  ملکی قانون کے مطابق چونکہ وفاقی حکومت  گندم کی پیداوار ، اس کی کھپت اور  اس کے محفوظ ذخائر  پر نظر رکھنے کی ذمہ دار ہے ، جبکہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری    گندم کی خریداری اور اس کو گوداموں میں حفاظت سے رکھنے کی ہے، تو جب  سندھ میں گندم کی قلت کا مسٔلہ در پیش ہوا تو  عوام کے شور و غل پر وفاقی حکومت  کی جانب سے بیان جاری ہوا  کہ سندھ حکومت نے اس کی    درست وقت پر  خریداری  کو یقینی نہیں بنایا جس وجہ سے  گندم کی قلت پیدا ہوئی۔  جبکہ سندھ حکومت  کا کہنا تھا  کہ وفاقی حکومت ملک میں گندم کی کھپت کا درست اندازہ نہیں  لگا سکی جس وجہ سے سندھ حکومت اس کی صحیح  وقت پر   خریداری  نہ کر سکی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایک دوسرے پر اسی  الزام تراشی   کی وجہ سے تاخیر ہونے کی صورت میں گندم کی قلت ایک بحرانی شکل اختیا کر گئی۔  

اسی طرح ٹڈی دل کے مسٔلہ کو دیکھ لیں جو نومبر ۲۰۱۹ میں اٹھا اور اس نے فصلوں کو تباہ کرنے کا آغاز کر  دیا۔ اس پر  صوبائی حکومتوں نے یہ بیان دیا کہ   یہ مسٔلہ تو وفاقی  حکومت  کے ٹھیک کرنے کا  ہے  کیونکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ایک ادارہ دنیا بھر  کے  ممالک  کو مطلع  کرتا رہتا  ہے کہ ٹڈی دل کے لشکروں کا رخ اب کس سمت ہے   ۔ اس پر پہلے تو وفاقی حکومت  کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا کہ ذراعت کے معاملات صوبائی حکومتوں کے زیر اثر ہیں لہٰذا وہ اسے حل کریں ۔ لیکن پھر  جب اسی کھینچا تانی میں معاملہ شدت اختیار کر گیا تو وفاقی حکومت نے  اس سلسلہ میں ملک بھر میں  ایمرجنسی نافذ کر دی۔ لیکن اس ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد بھی کئی مہینوں تک کچھ نہ ہونے کے بعد آخر کار جون  ۲۰۲۰ کے مہینہ میں  ترکی سے ایک جہاز ٹڈی دل کے سپرے کی لئے  منگوایا گیا۔ اس تمام تاخیر کی وجہ سے  ملک  کے چاروں صوبے  ٹڈی دل سے متاثر ہوئے اور ملک بھر کی ذراعت کو شدید ترین نقصان پہنچا۔

 ایسا ہی کچھ معاملہ کرونا وائرس کے سلسلہ میں بھی دیکھنے کو ملا کہ جب وفاقی حکومت  کی جانب سے صوبوں کو اس وباء سے نمٹنے سے متعلق کوئی رائے دی جاتی  تو صوبائی حکومتوں کی طرف سے یہ کہا جاتا کہ صحت کا معاملہ  تو صوبوں سے متعلق ہے  اور وفاقی حکومت کو ان کے معاملات  میں مداخلت  نہیں کرنی چاہیئے ۔  لیکن جب اس وباء سے نمٹنے کے لئے  ادویات اور طبی آلات کی ضرورت کی بات  آئی تو   صوبائی حکومتوں نے کہا کہ ان کی در آمد کا اختیار تو وفاقی حکومت کے پاس ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔  لہٰذا اختیارات کی  یہ پیچیدہ تقسیم  اس متعدی  مرض   پر  بر وقت قابو نہ پائے جانے پر منتج ہوئی۔

ان تمام مثالوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ   ان  اور ان جیسے  دیگر تمام مسائل کا تعلق اس بات سے نہیں کہ مختلف سطحوں پر حکومتی اقتدار پر فائز عہدہ داران ملکی    دستور و قوانین پر صحیح طرح سے عمل نہیں کر رہے کہ اگلے انتخابات میں  بہتر لوگوں کو ووٹ دے کر ان کی جگہ پر لایا جائے۔   بلکہ ان کا تعلق خود اس وفاقی طرز حکومت کے ساتھ ہے کہ جس میں حکومتی اقتدار کی تقسیم  خود  اس نظام کی اپنی ساخت میں شامل ہے ۔ اور اس کی وجہ سمجھنا بہت آسان ہے۔ وفاقی نظام کا موجد مغرب ہے۔اہل  مغرب نے جب اس نظام کو وضع کیا تو ایسا انہوں نے اپنے ہاں رائج  اس  مذہبی بادشاہت  (ریلیجس مونارکی) کے نظام سے چھٹکارے کے نتیجہ میں کیا کہ جس میں اقتدار اعلیٰ  پوپ اور بادشاہ  کے پاس تھا۔     چونکہ پوپ اور  بادشاہ کے عہدوں  میں تمام طاقت کا ارتکاز تھا جس کے ذریعے انہوں نے عوام کا استحصال کیا اور عوام کو  غلام بنا کر رکھا  تو مغرب اس نتیجہ پر پہنچا کہ :

"Power corrupts, and absolute power corrupts absolutely".

یعنی " طاقت فساد پیدا کرتی ہے، اور مطلق طاقت مطلق فساد پیدا کرتی ہے "۔  لہٰذا  روشن خیالی (انلائٹنمنٹ) کے دور میں اٹھنے والے    انقلاب برطانیہ اور انقلاب فرانس   کے بعد مغرب نے اپنے لئے جو حکومتی نظام وضع کیا وہ ان کے  اس سابقہ  ذاتی تجربہ کے عین  رد عمل  پر مبنی تھا۔ اس لئے سب سے بنیادی اصول جو انہوں نے اپنایا وہ حکومتی  اقتدار کی تقسیم  کا تھا تا کہ اس اقتدار کے ارتکاز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ مطلق العنانیت سے بچا جا سکے۔لہٰذا یہ مغرب ہی تھا جس نے   موجودہ  وفاقی نظام حکومت کو  تشکیل دیا  جس میں حکومتی اقتدار   وفاقی، صوبائی اور مقامی     جیسی مختلف سطحوں میں منقسم ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ کے ان حقائق  پر سے گرد کو مزید ہٹانے سے    جو ایک اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب نے وفاقی  طرز کا  نظام  حکومت اس وجہ سے اختیار نہیں  کیا تھا کہ یہ بہت کامیاب نظام حکومت کے طور پر ثابت شدہ تھا ۔ بلکہ انہوں نے تو اس نظام کو پہلی بار خود وضع کیا تھا اور اس کے نتائج تو اس کے نفاذ کے بھی ایک  خاطر خواہ عرصے کے بعد نمودار ہونے تھے۔ انہوں نے یہ نظام  دراصل بادشاہت  اور پاپائیت کے نظام کی ضد کے طور پر وضع کیا تھا ۔ لہٰذا ایک رد عمل پر مبنی ہونے کی وجہ سے  یہ نظام  الگ سے اپنی  کوئی  منفرد اورٹھوس نظریاتی بنیاد اس وقت بھی نہیں رکھتا تھا۔ تو اگر آج کے تجربے کے بعداگر  یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ  پاپائیت   کی طرح یہ وفاقی طرز کا نظام  حکومت  بھی ڈیلیور نہیں کر سکا  تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر  اس کو چھوڑ  کر کسی اور نظام حکومت کی طرف کیوں نہیں جایا جا سکتا؟ اور اگر  اختیار کئے  جانے والےنئے نظام کا نظریاتی اعتبار سے  اور تاریخی تجربے سے بھی  کامیاب ہونا  ثابت شدہ  ہو تو اس کو اختیار کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟

   تاریخ کے صفحات کو مزید  پلٹنے پر ہمیں   حضرت عمر ابن الخظاب ؓ کا یہ مشہور  قول نظرآتا ہے کہ :"  اگر عراق میں بھی  کوئی بھیڑ یا خچر   چلتے ہوئے ٹھوکر کھا جائے ، تو مجھے یہ خوف ہے  کہ مجھ سے  (قیامت کے روز) یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے راستوں کو ٹھیک کیوں نہیں کیا"۔ اسی طرح خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ  کا قول ہے  کہ :" بیجوں کو پہاڑوں کی  چوٹیوں پر بھی بو دو  تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمانوں کی سرزمینوں میں  پرندے بھوکے رہ گئے"۔  اگر ہم مسلمانوں کے اس دور کے نظام حکومت  کا مطالعہ کر یں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے  کہ ان کے ہاں نظام  حکومت وحدانی طرز کا  تھا ، نا کہ وفاقی۔ لہٰذا  مراکش سے لے کر خراسان تک پوری ریاست کے  شہریوں کی  ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سےجوابدہ     ان کا مرکزی حکمران یعنی خلیفہ ہوا کرتا تھا۔   وہ اس   بات کا ذمہ دار تھا کہ  عوام کی بنیادی  ضروریات  یعنی خوراک، لباس اور رہنے کے لئے چھت کو ان کے لئے بہم   پہنچائے  اور اس کے ساتھ ساتھ  ان کی صحت، تعلیم اور  امان کو بھی  یقینی بنائے۔ اب ان تمام فرائض کو پورا کرنے  کے لئے خلیفہ صوبوں پر والی(گورنر) اور شہروں پر عامل ( میئر) مقرر کرتا تھا۔ چونکہ  خلیفہ کے اقتدار  میں رہنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ، نہیں تو ریاست کی عدلیہ کا  قاضی  اسے معزول  کرنے کا اختیار  بھی رکھتاتھا   ، اس لئے خلیفہ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ والی اور عامل کے طور پر ایسے لوگوں کو منتخب کرے  جو عوام کے امور کی دیکھ بھال کرنے کی پوری   پوری صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح خلیفہ ان والیوں اور عمال کو ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر کسی بھی وقت    بر طرف کر کے  ان کی جگہ پر  کسی ایسے  شخص کو منتخب کر نے کا اختیار رکھتا تھا جو اس  عہدہ کا زیادہ اہل ہو۔ اور اگر کسی حکومتی عہدہ دار سے اس کے علاقے کے اکثر لوگ غیر مطمئن ہوں تو خلیفہ پر یہ  لازم تھا کہ اس شخص کو ہٹا کر کسی اور کو اس عہدہ پر فائز کرے۔ اس وجہ سے والیوں اور عمال کی  بھی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ لوگوں کی جانب  سے ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو   پورا کرتے رہیں۔   چونکہ  صوبوں کے والی اور شہروں کے عامل خلیفہ کی طرف سے ہی مقرر اور برطرف ہوتے تھے ، اور  خلیفہ انہی کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا تھا  لہٰذا وہ اور خلیفہ مل کر  ایک ایسی  مربوط ٹیم کی سی حیثیت رکھتے تھے جن کا ہدف  ایک ہی  ہوتا تھا یعنی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال ۔ اور یہ وہ ذمہ داری تھی کہ  جس پر ان  کا  اپنے عہدوں پر برقرار رہنا  بھی منحصر تھا۔  طوالت  کے باعث  یہاں ایسی مثالوں کا ذکر کرنا ممکن  تو نہ ہو گا لیکن  اس سلسلہ میں قاضی ابو یوسف (م۱۸۲ھ) کی کتاب الخراج  اور امام ماوردی (م ۴۵۰ ھ) کی احکام السلطانیہ  اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر حالیہ دور سے شبلی نعمانی (م ۱۹۱۴ ء) کی الفاروق ، ہر ایک میں  یہ واقعات  پڑھنے  کو ملتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خلفاء راشدینؓ  کس طرح  والیوں اور عمال کا تعین خود کیا  کرتے تھے اور ان کے لئے ایسی  شخصیات  کا انتخاب کرتے تھے جن کے لئے صرف  متقی ہونا کافی نہیں تھا  بلکہ ایسی  سیاسی بصیرت  کا حامل ہونا بھی لازمی  تھا  کہ جس کے ذریعے وہ عوام کے امور کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔  اسی طرح ایسے بہت سے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں مثال کے طور پر حضرت عمر ؓاپنے  والیوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں، اطمینان بخش کارکردگی نہ ہونے کی صورت میں انہیں تبدیل کر دیتے ہیں اور عوام  کی اپنے والیوں اور عمال   سے متعلق  شکایات  کی  باقاعدہ سنوائی اور ان  کا ازالہ کرتے ہیں۔

یوں اسلام کے اس  وحدانی طرز کے نظام میں  حکومتی اقتدار مختلف سطحوں میں  تقسیم شدہ نہیں ہوتا  کہ جس کی وجہ سے  وفاقی ، صوبائی یا شہری سطح کے عہدہ دار  ان اپنی ذمہ داری    قبول نہ کرتے ہوئے ملبہ ایک دوسرے پر گرا  سکیں ۔ پھر چونکہ  اس نظام میں عوام کی طرف سے  صرف خلیفہ کا ہی  انتخاب    کیا جاتا ہے  جو کہ  بیعت  کے ذریعے اسے اپنا خلیفہ چنتے ہیں اور پھر خلیفہ والیوں اور عمال پر مشتمل اپنی ٹیم  خود تشکیل دیتا  ہے ، لہٰذا اس نظام کو  یہ مسٔلہ بھی  در پیش نہیں ہوتا  کہ   ایک ہی وقت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان مختلف  حکومتی عہدوں پر  انتخابات  کے نتیجے میں    فائز  ہو جائیں    اور ان میں آپسی رسہ کشی  کے باعث پورا حکومتی ڈھانچہ غیر مؤثر ہو کر رہ جائے   ۔ اسی طرح وہ نظام   اس  مسٔلہ سے  بھی پاک  تھا کہ لسانی و نسلی تعصب کا شکار لوگ عوام سے  ووٹ لے کر حکومتی عہدوں پر براجمان ہو جائیں  اور   اس کا خمیازہ عوام میں سے باقی برادریوں کو اپنے حقوق کے کچلے جانے کی صورت میں  بھگتنا پڑے۔ تو   کیا کراچی کے مسائل کا حل محض  انتظامی تبدیلیوں سے ممکن ہے یا اس کے لئے  نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے  ؟۔۔۔

 

تبصرے