کیا بائیڈن ٹرمپ سے بہتر ہیں؟
امریکہ میں حالیہ صدارتی انتخابات میں فتح پانے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے امید وار جوزف بائیڈن (Joseph Biden)کی کامیابی پر پاکستان سمیت پوری دنیا
میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا جو بائیڈن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر ثابت ہوں گے یا نہیں۔ اس حوالے سے بائیڈن
کی جانب سے اپنی صدارتی مہم میں پیش کیے
گئے عزائم کا ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں سے
موازنہ کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ سننے کو مل رہی ہے کہ
بائیڈن کے دعوے کے مطابق وہ ٹرمپ کی جانب سے ایک درجن سے زائد مختلف ممالک کے باشندوں پر امریکہ
میں داخلے پر لگائی گئی پابندی کا آتے
ہی خاتمہ کردیں گے ۔ صدر ٹرمپ نے یہ پابندی اپنی صدارت کے پہلے سال یعنی 2017ء میں لگائی تھی جس بات کا عہد
انہوں نے اپنی 2016ء کی انتخابی مہم میں کیا تھا۔ اس پابندی میں جنوبی کوریا اور
وینی زوئیلا کے علاوہ تمام ممالک کا تعلق یا تو اسلامی دنیا سے ہے یا پھر افریقہ سے ۔ اس اور ایسی چند اور باتوں کی
بنیاد پر بالخصوص مسلم دنیا میں یہ بحث
چھڑ چکی ہے کہ نئے آنے والے امریکی صدر مسلمانوں کے حق میں کیسے ثابت ہوں گے۔
جہاں تک بائیڈن کا ٹرمپ
کی نسبت مسلمانوں کے لئے بہتر ہونے کا تعلق ہے تو اس وہم کے درست یا غلط ہونے کا
اندازہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی (Democratic Party)اور ریپبلکن پارٹی (Republican Party) کے گزشتہ ادوار حکومت کی پولیسیوں اور ان پر عمل در آمد کو سامنے رکھ کر
بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کےصدر جیورج
بش سینیئر(George Bush Sr.)کےمشہور زمانہ اقدامات میں سے ان کا خلیج کی جنگ (Gulf War ) لڑنا شامل تھا۔ انہوں نے 1990ء میں عراق پر
حملہ کرنے کے لئے یہ ڈھونگ رچایا تھا کہ
عراقی فوج کویت کے ہسپتالوں میں گھس کر نومولود بچوں کو انکیوبیٹرز (incubators) میں سے نکال نکال کر باہر پھینک رہی ہے جس وجہ سے 300
سے زائد بچوں کی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ ظلم اور بربریت پر مبنی یہ جھوٹی داستان گڑھ کر اور 35 ممالک کو اپنے ساتھ ملا
کر امریکہ نے محض اپنے مادی مفادات کے
حصول کے لئے عراق کے خلاف یہ جنگ لڑی
جس میں ہزاروں مسلمان قتل کئے گئے۔
اس کے بعد ڈیموکریٹک
پارٹی کے صدر بل کلنٹن (Bill Clinton) کا دور آیا۔
کلنٹن نے اپنے دور صدارت میں نام نہاد "عرب اسرائیل امن" کا راگ
الاپا اور 1993ءمیں اس وقت کے
اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق ربین (Yitzhak Rabin) اور پی ایل او
(Palestinian Liberation Organization) کے چیئرمین
یاسر عرفات کے درمیان اوسلو معاہدہ (Oslo Accord) کروایا جس میں
پی ایل او کی جانب سے اسرائیل کے عرب سرزمین پر ناجائز وجود کو تسلیم کر لیا گیا ۔
اس معاہدے کے مسلمانوں کے سراسر خلاف ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد سے مسلمانوں کی جانب سے یہ مطالبہ کہ اسرائیل کی ریاست کا وجود ہی غلط ہے کیونکہ
اسرائیل کی ریاست کا قیام مسلمانوں کی سر
زمین کو غصب کر کے عمل میں لایا گیا ہے ،
اس مطالبے میں تبدیل ہو کر رہ گیا کہ اسرائیل
کا باقی سرزمین پر قبضہ بیشک برقرار رہے اور ہم اس کے اس قبضے کو تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن
بس یہ کہ اسے صرف مغربی کنارے (West
Bank) اور غزہ کی پٹی (Gaza Strip) سے نکل جانا چاہیئے !اس کے علاوہ 1994ءمیں روانڈا میں توتسی (Tutsi)
گروہ کی تین ماہ سے زیادہ
عرصے تک جاری رہنے والی نسل
پرستی کے دوران کلنٹن کی خاموشی کم سے کم چھ لاکھ توتسی نسل کے افراد کے قتل عام پر منتج
ہوئی۔پھر 1995ء میں بوسنیا جنگ کے دوران
جب سربوں نے مسلمانوں کے ایک شہر سربرینیٹسا
(Srebrenica) پر حملہ کیا تو وہاں 12 سال سے 65
سال کی عمر کے تمام مردوں کو گرفتار کر کے ان کا قتل عام کیا اور وہاں کے تمام عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں
کو شہر بدر کر دیا۔ صدر کلنٹن نے جب اس
جنگ کے خاتمے پر سربوں اور مسلمانوں
کے درمیان ڈےٹن معاہدہ (Dayton
Agreement) طےکروایا تو اس علاقے کو مسلمانوں کی
بجائے سربوں کے حواے کر دیا لیکن اپنے اس تعصب کو چھپانے کے لئے معاہدہ میں
مسلمانوں کو اس علاقے میں واپس لوٹنے کی
برائے نام اجازت شامل کر دی۔ اس کے بعد سربوں
کی جانب سے مسلمانوں کو نا صرف واپس آنے
سے روکا گیا بلکہ واپس آنے والے مہاجرین
پر حملے بھی جاری رہے ۔ 1998ء میں صدر کلنٹن نے سوڈان کے شہر خرطوم شمال میں " الشفاء فارما سوٹیکل فیکٹری" کے نام سے قائم ایک دوا ساز فیکٹری کو بم سے تباہ کر دیا محض شک کی بنیاد پر کہ شائد وہاں پر نرو گیس (Nerve Gas) تیار کی جا رہی تھی جو کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہوتی
ہے۔ اس بم کا ایک جواز یہ بھی بنایا گیا
کہ امریکہ کو اس فیکٹری میں اسامہ بن لادن کے چھپے ہونے کا شک تھا۔ لیکن بعد میں خود امریکی حکام کا اس بات پر اعتراف سامنے آیا کہ امریکہ کے پاس حملے سے قبل ان دو نوں باتوں میں
سے کسی ایک کا بھی ثبوت نہ تھا۔
اس کے بعدریپبلکن
پارٹی کے جیورج بش جونئیر (George
Bush Jr.) کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وار آن ٹیرر (War
on Terror)
کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔
عراق میں بش کی برپا کی گئی جنگ اور اس میں کلسٹر بموں (Cluster Bombs) اور سفید فاسفورس کے استعمال کے نتیجہ میں 12لاکھ سے
زائد لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، 50لاکھ لوگ بے گھر ہوئے
اور ہر دو میں سے ایک شخص کو ایسے زخم
آئے جو یا تو اس کی موت پر یا پھر مستقل معذوری پر نتیجہ انگیز ہوئے۔ اور یہ سب اس سے الگ ہے جس ذلت کا سلوک امریکی افواج نےعراقی عوام کے ساتھ کیا ،
انہیں اغواء کیا اور
ابو غریب کے قید خانے میں ڈال کر
ان کے ساتھ انسانیت سوز برتاؤ کیا جس کی
شہادت خود امریکہ سمیت پوری دنیا کا میڈیا
آج تک دیتا ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بش کی برپا کی گئی جنگ میں اب تک ہزاروں کی
تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا
ہے ۔ یہاں بھی امریکہ نے اپنی بگرام ائیربیس
کے اندر پروان ڈیٹنشن فسیلٹی
(Parwan Detenton Facility) کے نام
سے قید خانہ قائم کیا جس کے اندر
سیاہ قید خانے (Black Jail) کے نام سے ایک اور خفیہ قید خانہ بھی قائم
کیا گیا۔ ان قید خانوں میں بھی امریکہ نے انسانیت سوز جنگی جرائم
کی داستانیں رقم کیں جن کی آج بھی پوری دنیا گواہ ہے۔ یوں امریکہ نے اپنی "جمہوریت" اور "آزادیاں
"افغانستان اور عراق کی "مظلوم" عوام کو بہم پہنچائیں ۔
اس وقت جو لوگ ٹرمپ
کے مقابلے میں بائیڈن سے امید لگا ئے بیٹھے ہیں، ایسی ہی امیدیں لوگوں نے 2009 ء میں بش کے
بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر باراک حسین اوباما سے بھی لگائیں تھیں ۔
لیکن مسلم دنیا میں اپنے حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف 2011 ء سے اٹھنے والے عرب بہار کے انقلابوں کو غیر مستحکم کرنے اور ان
کا رخ اپنے مفادات کی جانب موڑنے میں صدر اوباما
نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک جانب تو
انہوں نے "عوامی حاکمیت" اور "لوگوں
کی حکومت" کا منافقانہ دعویٰ جاری رکھا تو اسی دوران دوسری
جانب شامی عوام کے خلاف بشار
الاسد جیسے سفاک آمر حکمران کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ صدر اوباما نے ڈرون حملوں کے
ذریعےمسلمانوں کو قتل کرنے میں اپنے سے پہلے آنے والے امریکی صدور سے بھی سبقت
حاصل کی۔ یمن اور لبیا کے مسلمان سب سے
بڑھ کر ان حملوں کا نشانہ بنے۔
جہاں تک حالیہ
انتخابات میں منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے جوزف بائیڈن کا تعلق
ہے تو وہ 1973 ء سے 2009 ء تک کے ایک طویل عرصے کے
دوران امریکی سینٹ (Senate) کا حصہ رہے
ہیں۔ 1980 ء کی دہائی میں
اگرچہ بائیڈن امیگریشن (immigration) کے
حق میں پہلے سے موجود اور نئے بننے والے
قوانین کی حمایت کرتے رہے، لیکن 1990ء کی دہائی کے وسط کے بعد سے انہوں نے بارہا ایسے قوانین پاس کرنے کی حمایت
کی جن کا مقصد امیگرینٹس (immigrants) کے حقوق میں کمی لانا
تھا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کے
اختیارات میں اضافہ کرنا تھا جو ایسے
لوگوں کو تلاش کرکے ان کے ممالک میں واپس
بھجوا سکیں جن کی دستاویزات مکمل نہیں
تھیں۔ پھر بائیڈن صدر اوباما کے دونوں ادوار صدارت میں 2009ء سے لے کر 2017ء تک ان کے نائب صدر بھی رہے۔ لہٰذا بشار الاسد کی اپنے ہی لوگوں کے خلاف بربریت کی
بھرپور حمایت سے لے کر مسلمانوں پر
زیادہ سے زیادہ ڈرون حملے کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے تک کے تمام اقدامات کا سہرا اوباما کے ساتھ ساتھ مساوی طور پر بائیڈن کے سر پر بھی ٹھہرتا ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے صدر امریکہ کی ریپبلکن پارٹی (Republican
Party)سے ہو جیسا کہ بش سینئیر، بش جونئیر اور ٹرمپ وغیرہ یا پھر
ڈیموکریٹک پارٹی (Democratic Party)سے جیسا کہ کلنٹن اور
اوباما وغیرہ، امریکہ کی مسلمانوں
کی جانب پولیسیوں اور اقدامات میں کوئی قابل ذکر فرق واقع نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ یہ
ضرور ہوا ہے کہ کوئی حکومت اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کر دیتی ہے جیسا کہ بش
جونئیر اور ٹرمپ نے کیا جبکہ کوئی حکومت
ان کو پوشیدہ رکھتی ہے اور بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا ثابت ہوتی ہے جیسا کہ کلنٹن اور
اوباما نے کیا، اور یہی مؤخر الذکر
معاملہ نئے منتخب کردہ صدر جو بائیڈن کے سلسلہ میں بھی نظر آتا ہے جو ایک میٹھی
چھری سے کم مہلک ثابت نہیں ہوتے ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ مسلمان ہر نئے آنے والے امریکی صدر سے کسی قسم
کے اچھے نتیجے کی امید کریں اور ان سے مسلمانوں کے حق میں نسبتاً کم برا ہونے کی
توقع رکھیں ، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اس شکست خوردگی پر مبنی سوچ
(Defeatist Mentality)سے باہر نکلیں اورخود اپنی ایک ایسی
مضبوط ریاست قائم کریں جو دنیا بھر میں ناصرف مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی استعماری ریاستوں کی ظلم و جبر پر مبنی پولیسیوں اور اقدامات کے چنگل سے آزاد کرا
سکیں اور انہیں کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام
سے نکال کر اسلام کے منصفانہ نظام حکومت
میں داخل کر سکیں۔ شاعر مشرق نے یقیناً درست کہا تھا:
دیارِ عشق میں اپنا
مقام پیدا کر !
نیا زمانہ، نئے صبح و
شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ
فرنگ کے احسان
سفالِ ہند سے مینا و
جام پیدا کر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں