امت کی غلامی کے 100 ہجری سال
اس رجب 1442 ھ کو مسلمانوں کی آخری اسلامی ریاست یعنی خلافت عثمانیہ کو ختم ہوئے 100 ہجری سال پورے ہو رہے ہیں ۔ خلافت عثمانیہ اس عظیم اسلامی ریاست
کا تسلسل تھی جس کے زیر سایہ
مسلمان مجموعی طور پر ایک ہزار سال سے زائد
عرصے تک سیاسی، فوجی، معاشی، علمی، اور تہذیبی پہلو سے دنیا کی قیادت کرتے رہے۔ اس
خلافت کے خاتمے کے لیے یورپی استعمار نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور بالآخر آج سے
سو ہجری سال قبل وہ اس گھناؤنی سازش میں
کامیاب ہو گئے۔
یہ اس خلافت کا انہدام ہی تھا جس کے نتیجے
میں آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر مسلمانوں کو پچاس سے زائد ممالک میں تقسیم کر دیا گیا، اور انھیں نئے رنگ برنگے پرچم اور
ملبوسات ، بےہنگم ترانے اور جغرافیائی
شناخت دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ۔ پھر ان
تمام ممالک کو مغرب نواز حکمرانوں کے تحت مغربی نظاموں پر مبنی عالمی ورلڈ آرڈر کی چوکھٹ پر مؤدب غلام کی مانند
کھڑا کر دیا گیا۔ ہماری شامی، مصری، ترک اور برصغیر کی مختلف بٹالین اور کورز الگ
افواج بن کر ایک دوسرے کے بالمقابل اپنی اپنی سرحدوں پر کھڑی ہو گئیں جس میں سے کسی کی بھی
ذمہ داری قبلہ اول کو آزاد کرانا نہ رہی، نہ ہی ان افواج پر دیگر مقبوضہ مسلم
علاقوں کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ مگر وقتاً فوقتاً استعماری آقاؤں کی خدمت کیلئے
ہر جگہ ان افواج کا بےدریغ استعمال کیا
گیا۔ ہمارے وسائل بکھر گئے اور لالچی
عالمی سرمایہ داروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہماری تیل کی دولت فرانس کے منرل واٹر سے
سستی ہو کر یورپ اور امریکہ کی ترقی کا ایندھن بن گئی لیکن ہمارے اپنے لوگ جو
اسلامی نظام کے زیر سایہ خوشحال تھے،
اب غربت و افلاس کا
نشان بن گئے۔ وہ بیت المال ختم ہو گیا جو مالداروں سے زکوٰۃ ، عشر اور خراج وصول کرکے اس کے حقداروں
کو پہنچاتا تھا۔ جہاد اور حدود معطل ہو
گئے اور ہمارے علاقوں میں اس کفار کی افواج ایسے دندنانے لگیں جیسے یہ ان کی میراث کی زمین ہو۔ مشرق و مغرب میں
کروڑوں مسلمان تہہ تیغ کر دئیے گئے، لاکھوں خواتین کی آبروریزی کی گئی، کروڑوں بچے
یتیم ہو چکے ہیں، اور مسلم سرزمین عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا اکھاڑا بن گئی ہے،
جبکہ مسلمان اپنی زمینوں پر محض تماشائی بن کر رہ گئے ہیں، جیسے وہ ڈربے کی مرغی کی طرح اپنے ذبح ہونے کی باری کا
انتظار کر رہے ہوں۔
امت کی اس خلافت
کو انہدام سے روکنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں نے بالعموم اور اس خطے کے
مسلمانوں نے بالخصوص بھرپور جدوجہد کی ۔ جب مغربی استعمار نے بیمار عثمانی خلافت کے
خون کے لیے تلوار اٹھائی تو برِصغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک سفاک برطانوی قبضے
تلے ہونے کے باوجود اس کے دفاع کیلئے متحرک ہوگئے۔ لہٰذا جب اطالویوں (یعنی اٹلی)
کی افواج نے ستمبر 1911 میں بحیرۂ روم
پار کر کے خلافت پر حملہ کر دیا اور
موجودہ لیبیا کے شہروں
طرابلس اور بن غازی پر قبضہ کر لیا تو پورے برِصغیر پاک و
ہند میں عوامی اجلاس منعقد ہونے لگے جن
میں اس "ظالمانہ اور ناجائز ترین جنگ کے خلاف ترکی کے سلطان اور ہمارے محترم
خلیفہ" کی حمایت اور مدد کے لیے پکارا گیا۔ اسی طرح جب بلقان ریاستوں نے
خلافت پر حملہ کیا تو اکتوبر 1912 میں متعدد مظاہرے منعقد ہوئے۔ خلافت کے لیے فنڈز (مالی امداد ) جمع کرنے
کی خاطر نومبر 1912 میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں مخلص شاعر،علامہ اقبال ؒ نے اپنی نظم "جوابِ شکوۃ" پڑھی۔ تحریکِ
خلافت میں اترپردیش کے شوکت علی اور محمد علی جوہر نے خلافت کی مدد و حمایت کے لیے مسلمانوں کو
متحرک کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔
اسی طرح جب مغربی
استعمار نےخلافت پر اندر سے وار کرنے کیلئے عرب اور ترک قومیت کے حربے کو استعمال کیا تو بیدار مسلمان
حرکت میں آ گئے۔ جون 1916 میں جب عربوں کے
قومی غدار شریف حسین نے برطانوی سفیرلیفٹیننٹ
کرنل ہنری مک مہون کے ساتھ خفیہ مراسلت
کرنے کے بعد عثمانی خلافت کے خلاف جنگ لڑی ، تو
پورے برِصغیر پاک و ہند میں اس کی
غداری کے خلاف مظاہرے ہوئے۔26 جون 1916 میں لکھنؤ میں شریف حسین کے اس
"شرمناک طرزِ عمل" سے متعلق مذمتی قراردار منظور کی گئی۔
اسی طرح خلافت کے
دارالحکومت استنبول پر مغربی استعمار کے
قبضے نے برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بے چین کر دیا۔فروری 1919 میں
ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں امام یا خلیفہ کے تقررکو ایک فرض قرار دیاگیا۔21 ستمبر
1919 کو لکھنؤ میں منعقد ہونے والی ایک
کانفرنس میں مسلمانوں نے یہ اعلان کیا کہ"ترکی کی ممکنہ تحلیل اور ترک سلطنت
کے حصوں سے چھوٹی چھوٹی متعدد ریاستوں کا قیام جو
غیر مسلم طاقتوں کے زیرِ اثر ہوں،
خلافت میں ناقابلِ قبول دخل اندازی ہے جو مسلم دنیا میں مستقل عدم اطمینان کا باعث
بنے گی"۔17 اکتوبر 1919 کے دن کو
"یومِ خلافت" قرار دیا گیا ۔مسلمانوں میں خلافت کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ،
خلافت کانفرنسیں منعقد کی گئیں ، "خلافت روپیہ" جاری کیا گیا جس پر
قرآنی آیات کاترجمہ لکھا ہوا تھا اور
"خلافت" کے نام سے ایک جریدہ بھی شائع کیا گیا۔
خلافت کے دفاع کی ان طویل اور انتھک سیاسی کاوشوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اپنی جانیں
بھی داؤ پر لگا دیں۔ پہلی جنگِ عظیم (1918-1914) کی شروعات میں،ممبئی میں 10th بلوچ رجمنٹ کے
کچھ افراد نے ان برطانوی افسروں کوگولی مار دی جو خلافت کے خلاف جنگ کے لیے سمندر
پار کا سفر کرنے والے تھے۔رالپنڈی اور لاہور میں فوجی دستے برطانیہ کے خلاف فعال
ہو گئے۔فرانس پہنچنے والے فوجیوں میں سے کچھ مسلم فوجیوں نے مسلمانوں کی مدد کی
خاطر برطانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ جنوری 1915 میں رنگون میں موجود 130th بلوچ نے میسوپوٹیمیا میں عثمانی خلافت کے خلاف لڑنے سے انکار کر
دیا۔اس کے علاوہ، فروری 1915 میں پنجاب کے
کچھ مسلمان موجودہ خیبر پختونخوا کے
کچھ مسلمانوں کے ساتھ افغانستان
داخل ہوئے تاکہ خلافت کو بچانے کیلئے ترکی جا کر برطانیہ کے خلاف لڑ سکیں۔1916 کے
اوائل میں 15th لانسر کے آفریدی یونٹوں نے بصرہ میں عثمانی خلافت کے خلاف پیش قدمی سے
انکار کر دیا اور برطانیہ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔مسلم افواج کے خلاف سفاکانہ اقدامات
کے باوجودہند کے مسلم فوجیوں کی ایک بڑی تعدادنے برطانیہ کے خلاف عثمانی خلافت کے
شانہ بشانہ لڑائی میں شرکت کی۔
بے شک،برِصغیر پاک و
ہند کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے فریضے کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
لیکن بالآخر ،برطانوی ایجنٹ اور ترک قوم پرست،مصطفیٰ کمال نے آخری مہلک ضرب لگائی اور3 مارچ 1924 ء بمطابق 28 رجب 1342ھ کو خلافت کا
خاتمہ کردیا۔ مسلم امت کی خلافت کے تباہ
ہوجانے کے بعد سے کمزوریاں ، حملے اور استحصال بارش کی طرح ہم پر برسنے لگے۔ برطانیہ
نے سابقہ خلافت کے علاقوں کو جنگ کا لوٹا
ہوا مال سمجھ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں کاٹ دیا اور "تقسیم کرو اور حکمرانی
کرو" (Divide and Conquer)کی پالیسی کو
اختیار کیا۔ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے
کے باوجود تمام اقوام ہم پر پل پڑیں، جیسا کہ ہمیں رسول
اللہ ﷺ نے خبردار کیا تھا: يُوشِكُ الأُمَمُ
أنْ تَدَاعَى عَليْكُم كَمَا تَدَاعَى الأكَلَةُ إلَى قَصْعَتِهَا ،"اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے لوگ کھانے پر
ٹوٹ پڑتے ہیں"۔
آج مغرب ہمیں
یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ ہم مغلوب ہیں، ہم عالمی آرڈر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہمارے
پاس مغرب جیسا جدید نظام نہیں، پس ہمیں مغرب کے افکار اپنا کر دنیا کے عالمی نظام
میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ لیکن اس لائحہ عمل نے ہمیں مزید غلامی کے سوا کچھ اور نہیں دیا۔ جبکہ مسلمان دنیا بیش قیمت وسائل، اہم ترین جغرافیائی خطوں اور
تجارتی راستوں ، نوجوان آبادی، جذبہ ٔجہاد سے سرشار کئی ملین افواج، جدید ترین
اسلحے، ایٹمی قوت اور ان سب سے بڑھ کر
واحد درست آئیڈیالوجی یعنی اسلام کی حامل ہے، جو پوری انسانیت پر نافذ کیے جانے اور اس کے
ذریعے ان پر حکمرانی کیے جانے کے لیے نازل ہوا ہے ۔ خلافت کے انہدام کو گزرے یہ 100 طویل اور کٹھن ہجری سال، اسلام کے نظام
خلافت کے لوٹ آنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی ہے : ثم تكون خلافة على
منهاج النبوة
،" پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہو گی" (احمد)۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں