پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا مسٔلہ
حکومت نے 15
جنوری 2021 کو پٹرول کی
قیمت میں 3.2 روپے ، ہائی
سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2.95 روپے اور لائٹ
ڈیزل کی قیمت میں 4.42 روپے فی
لیٹر اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس سے صرف پندرہ دن پہلے
31 دسمبر 2020 کو پٹرول ، ہائی سپیڈ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل کی
قیمتوں میں بالترتیب 2.31 روپے، 1.80 روپے اور 3.95 روپے
فی لیٹر اضافہ کیا گیا تھا۔ اور اس سے بھی
پندرہ روز قبل یہ اضافہ 15
دسمبر 2020 کو کیا گیا
جب پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل
کی قیمتیں 3روپے جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت 5روپے کے ہوشربا اضافے کے ساتھ بڑھا دی گئی تھی۔ ستمبر 2020 سے
پہلےتک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین ایک ماہ کے لیے جاتا تھا لیکن پھر
ان کی قیمتوں کا تعین ہر دو ہفتے بعد کیا
جانے لگا۔ حکومت نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ اضافہ
عوام کو ریلیف دینے کی خاطر بہت کم مقدار میں کیا گیا ہے، نہیں تو اوگرا نے اس سے کئی گناہ زیادہ اضافے کی سفارش کی تھی۔ وزارت خزانہ کے مطابق
انہیں اوگرا سے 16 جنوری سے 31 جنوری کی مدت
کے لئے پٹرولیم مصنوعات میں 9
روپے سے 9.50 روپے فی لیٹر تک کے اضافے کی سفارش موصول ہوئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے جہاں تمام
اشیاء کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہوجاتا ہے جس میں خوراک بھی شامل ہے، وہیں دوسری
جانب ملکی صنعت و زراعت کے شعبے کی پید
اواری لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات بین
الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں۔ ایک جانب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت کو سدھارنے اور برآمدات
میں اضافے کے بیانات شب و روز سننے کو ملتے ہیں تو دوسری جانب ہر دوسرے ہفتے پیٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے معیشت
کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔ عوام ، کسان، تاجر اور صنعت کار پہلے ہی فیول
ایڈجسمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں
مسلسل اضافے سے شدید پریشان ہیں اور اب اس کی بنیادی قیمت میں بھی اضافہ ان کو معاشی
اعتبار سے مزید دیوار کے ساتھ لگا دے گا۔ ایسا اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ حکومت آئی ایم
ایف سے کیے گئے معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے جارہی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت عوام
کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ
نکال کر اکٹھا کرے تا کہ وہ آئی ایم ایف کو اپنی اچھی کارکردگی دکھا کر
اگلے قرضے کے لئے اپنے آپ کو اہل ثابت کر
سکے ۔
پیٹرولیم
مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فائدہ صرف ان نجی کمپنیوں کو ہوتا ہے جن کا تعلق ان
مصنوعات کی پیداوار اور ترسیل کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ عام عوام اور
پوری ملکی معیشت زبردست نقصان اٹھاتی ہے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل
اضافہ کیا جانا جس سے صرف اور صرف نجی مالکان کا فائدہ یقینی ہو، کوئی
مناسب بات ہے؟ کیا ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام اور پاکستان کی معیشت بہتر ہو سکتی ہے؟
کیا ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے مہنگائی کے خوفناک سونامی کے سامنے بندھ
باندھا جاسکتا ہے؟ یقیناً پیٹرولیم
مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل
اضافے سے عوام اور پاکستان کی معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آسکتی۔ تو کیا پھر
یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ ایک ایسی شے جس پر پوری معیشت کا انحصار ہے، اس کے
معاملات حکومت کی اپنی تحویل میں ہوں ؟تا کہ منافع کے لالچ کے بغیر پیٹرولیم مصنوعات
اور بجلی کو کم سے کم قیمت پر فروخت کیا جائے، جس کے نتیجے میں جہاں پیداواری لاگت
میں کمی آ سکے گی وہاں مہنگائی پربھی بہت حد تک قابو پایا جاسکے گا۔
اسلام نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کو
عوامی ملکیت قرار دیا ہے یعنی کوئی فرد، کمپنی یا حکومت کسی بھی صورت میں ان وسائل
کی مالک نہیں بن سکتیں بلکہ عوام مجموعی
طور پر اس کے اصل اور حقیقی مالک ہوتے ہیں
اور ریاست ان وسائل کے امور کو عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے چلاتی ہے اور ان
سے حاصل ہونے والے فوائد کو عوام تک پہنچاتی ہے۔ ان
میں توانائی کے وسائل بھی شامل ہیں
جیسا کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات
وغیرہ ۔
لہٰذا اسلام میں کسی شخص کے لیے یہ قانونی لحاظ سے ہی جائز نہیں کہ وہ خود انفرادی طور پر یا چند لوگ مل کر
ایک کمپنی کی صورت میں ان وسائل کو خرید
سکیں اور باقی تمام عوام کے بر عکس ان
وسائل کے تنہا مالک بن جائیں۔ ایسا
کرنے سے عوام اس مخصوص سرمایہ
دار طبقے کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے
ہیں۔ ایسا سرمایہ
دارانہ معاشی نظام میں ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے سرمایہ دار
پیدا ہوتے ہیں جن کی دولت ریاستوں کی مجموعی دولت سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ دا گارڈین (The
Guardian) کی 26 اکتوبر 2018 کی ایک رپورٹ
کے مطابق 2017 میں
دنیا کے بلینئرز (billionaires) نے
اپنی پہلے سے موجود دولت میں
1.4 ٹرلین ڈالر کا مزید اضافہ کیا جو اسپین کے کل جی ڈی پی سے بھی زیادہ تھا۔ چنانچہ اس نظام میں
ریاستیں اور عوام ہمیشہ غریب اور مقروض ہوتے ہیں جبکہ ایک مخصوص
سرمایہ دار طبقہ نا قابل یقین طور پر انتہائی امیرہو جاتا ہے۔ یہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے " آ زادیٔ
ملکیت " کے فلسفے کی بنیاد پر قانونی طور پر ہر طرح کے وسائل کو خرید کر ان کا مالک بن سکنے
کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایسا کسی خارجی عوامل کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ
ایسا ہونا خود سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے خمیر میں گندھا
ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام
جہاں بھی رائج ہو تا ہے وہ ہمیشہ کم و بیش انہیں حالات پر منتج ہو تا ہے ۔لہٰذا
اس سے بہتری کی کوئی امید استوار رکھنا دراصل خود فریبی کے مترادف ہو گا۔ یہ نظام آج بشمول پاکستان پوری دنیا میں کسی بڑے
فرق کے بغیر رائج ہے۔تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی توانائی جیسےعوامی ضرورت سے متعلقہ وسائل
پرائی ویٹائزڈ (privatized) ہیں ۔ ان کی نجکاری مہنگی بجلی اور بجلی کی قلت جیسے مسائل کی ایک بنیادی وجہ ہے ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس نظام کے مطابق کام کرنے والے مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم
ایف وغیرہ کے قرضے بھی مزید
ملکی وسائل کی نجکاری سے مشروط ہوتے ہیں ۔ یہ نجکاری عوام میں مستقل طور
پر غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے
کی قیمت ادا کر کے چند سرمایہ داروں کی دولت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔
اسلام
میں افراد کے علاوہ ریاست کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ عوامی ضرورت سے متعلقہ وسائل کی خود مالک بن جائے ، کہ وہ پھر عوام کو ان وسائل سے متعلقہ مصنوعات کی فروخت کے ذریعے منافع کما کر اپنے خزانے بھرے جیسا کہ سوشلزم یعنی اشتراکیت پر مبنی معاشی نظام میں ہوتا ہے ۔ ایسے
نظام میں بھی عوام انتہائی
غریب رہ جاتے ہیں اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔لیکن یہ نظام اب اپنی اصل صورت میں یا نظریاتی طور پر کہیں نافذ نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں