امت کے خادم یا امت کے مجرم ؟
امت کے خادم یا امت کے مجرم ؟
جب ہم آج پاکستان کے جمہوری نظام کے پیدا کردہ حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک مکمل خلاءنظر آتا ہے۔یہ حقیقت پوری قوم کے سامنے واضح ہے کہ پاکستانی حکمران تخت اسلام آباد اور تخت لاہور کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ ملک کا بڑا حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ریاستی مشینری اور وسائل کی عدم موجودگی بالکل واضح ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ 30عرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ، کھڑی فصلیں برباد ہو گئی ہیں، لاکھوں مویشی سیلاب کی نظر ہو گئے ، تو پوری ریاستی مشینری ، حکمران ، بیوروکریسی، فوج، پولیس، سول ڈیفنس، وزراء ، عوامی نمائندے اور تمام میڈیکل عملے کو متحرک ہو جانا چاہیئے تھا ۔ لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہ آیا ۔ حکومت نے اپنے اناج کے گودام کھولے اور نہ ہی خزانے کا منہ۔ یہ خزانے کا منہ آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کے لیے تو کھلتا ہے، عوام کے لیے نہیں۔اس موجودہ نظام میں حکومت کا طرز ِ عمل یہ ہے کہ ایک طرف تو عوام قربانیاں دے کر ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی سعی کررہے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، تنخواہ دار طبقے کے ذاتی انکم ٹیکس میں اضافہ کرتی ہے اور صنعتوں پر 10 فیصد، ون ٹائم سپر ٹیکس لگا کر اربوں روپے صرف منافے کی مد میں کمارہی ہے ۔
یہی جمہوریت کی حقیقت ہے۔یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں یہی وہ حکمران ہیں کہ جنہیں عوام پر پڑنے والی مشکلات کا کوئی احساس نہیں ۔ یہ صرف اپنی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بناتےہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خود تو بجلی کے بریک ڈاؤن سے نپٹنے کے لیے سولر پاور سسٹم یا خودکار جنریٹر والے بنگلوں میں رہتے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت اس قسم کے بجلی پیدا کرنے کے کسی متبادل کے انتظام کا خرچہ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ عوام اور حکمرانوں کےدرمیان فرق کا یہ عالم ہے کہ شہباز شریف صاحب عدالتی سماعتوں پرپراڈو گاڑی میں آتے ہیں جبکہ اُن کے مسلح گارڈ ڈالوں میں سوار ہوتے ہیں جبکہ عوام بنیادی انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔
اس کےمقابلے میں اور اس کے بالکل برعکس ، اسلام کے نظام کے بہت سے منفرد پہلوؤں میں سے ایک پہلو خلیفہ اور امت کے درمیان پروان چڑھنے والا رشتہ شاید سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس تعلق کا خلاصہ رسول اللہ ﷺ نے خود ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حاکم لوگوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔" (متفق علیہ)۔
یہاں پر نگہبان یا ذمہ دار کے لیے عربی میں استعمال ہونے والا لفظ" رَاعٍ" ہے جسے عربی لغت میں محافظ کے طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا حدیث کے مطابق حکمران امت کا خیال رکھتا ہے بالکل ویسے جیسےکہ ایک آدمی اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، اپنے خاندان اور بچوں کی حفاظت کرتا ہے، ان کی کفالت کرتا ہے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ امام اس طرح امت کا خیال رکھتا ہے جیسا کہ عورت کسی کے کہے بغیر اپنے شوہر کے گھر کا خیال رکھتی ہے، گھر والوں کی، شوہر اور اس کے بچوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، اور اپنی اولاد کی پرورش کے لیے محبت، شفقت اور پیار کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام میں سیاست کا تصور، نگہداشت اور سرپرستی کرنےسے متعلق ہے جبکہ آج کی سیاست اس سے کوسوں دور ہے۔
حدیث میں یہ بیان کہ امام امت کے لیے ایسا محسوس کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے اہل و عیال کے لیے محسوس کرتے ہیں، یہ کوئی فرضی بیان نہیں ہے، بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے اعمال سے بھی ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر ریاست مدینہ کے ایک ذمہ دار حکمران کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے براہ راست نوکری کے انتظام کا معاملہ فرمایا۔ ابن ماجہ نے روایت کیا ہے :"انصار کا ایک آدمی رسول ﷺ کے پاس آیا اور آپ سےسوال کیا ۔ آپ ﷺنے پوچھا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، کپڑے کا ایک ٹکڑا، ایک حصہ جسے ہم پہنتے ہیں اور ایک حصہ جسے ہم (زمین پر) بچھاتے ہیں، اور ایک لکڑی کا پیالہ جس سے ہم پانی پیتے ہیں۔ فرمایا: انہیں میرے پاس لے آؤ۔ پھر وہ شخص یہ چیزیں آپﷺ کے پاس لایا اور آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور لوگوں سے پوچھا: یہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں خریدوں گا۔ آپ نے دو تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں دو درہم میں خریدوں گا۔ آپ ﷺ نے وہ چیزیں اُسے دیں اور دو درہم لے کر انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: ان میں سے ایک درہم سے کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ۔ پھر وہ انصار ی کلہاڑی لے کرآپﷺ کے پاس لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کلہاڑی پر ایک دستہ لگایا اور فرمایا: جاؤ، لکڑیاں جمع کرو اور اسے بیچو، اور میں پندرہ دنوں تک تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں جمع کرکے بیچنے لگا۔ جب اُس نے دس درہم کمالیئے تو وہ آپ ﷺ کے پاس آیا،اس نے ان میں سے کچھ کے کپڑے اور باقی سے کھانا خریدا۔اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا: یہ تمہارے لیے اُس بھیک مانگنےسے بہتر ہے جو قیامت کے دن تمہارے چہرے پر داغ بن کر آتی "۔
چنانچہ مسلمانوں کے امام کے لیے قانونی حکم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو کام کرنے اور روزی کمانے کے ذرائع فراہم کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک شخص گزشتہ 75 سالوں میں پاکستان میں آنے والی تمام قومی قیادتوں سے یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ معدنیات اور وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی جامع ترقی کے لیے کیا پالیسی بنائی گئی؟
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے باقی صحابہ کرام ؓ کی طرح خود بھی شدید بھوک کے باعث اپنے پیٹ پر پتھر باندھے کیونکہ انہوں نے بھی تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ یعنی مسلمانوں اور صحابہ کرام ؓ کا کوئی بھی مسئلہ رسول اللہﷺکا مسئلہ تھا۔ آپ ﷺ خود بھی جس طرح تکلیف اٹھاتے تھےوہ اس لیےتھا کیونکہ آپ ﷺ ان کے سیاسی رہنما تھے۔ اور آپ ﷺنے امت کے مسائل کے لیے اپنی ہمدردی کو اپنے عمل سے واضح طور پر ظاہر کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ ﷺ کے بعد سب سے پہلے حکمرانی کرنے والے خلیفہ ابوبکر الصدیق ؓ نے اعلان کیا تھا : "تم میں سے کمزور میرے سامنے اس وقت تک قوی ہے جب تک میں اس کا حق اس کو واپس نہ دِلا دوں، اور تم میں سے طاقتور میرے سامنے کمزور ہے جب تک کہ میں ان سے حق نہ لے لوں، ان شاء اللہ"۔ خلیفہ ہونے کے ناطے ابوبکر صدیق ؓ نے ہر فرد کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری سمجھی۔ جبکہ کمزوروں کے حقوق کے لیے ذمہ داری کا احساس ہمارے ان سیاست دانوں کو کہاں ہو گا، جو اپنے علاج کے لیے بیرون ملک اس لیے سفر کر تے ہیں کہ ملک میں صحت کی سہولیات کی فراہمی ناکافی ہے، جس کیلئے وہ مکمل طور پر خود ہی ذمہ دار بھی ہیں ۔
عمر فاروق ؓ کا بچوں کے لیے وظیفہ قائم کرنے کا معاملہ مشہور ہے اور انھوں نے یہ شرط رکھی کہ بچوں کو اس وقت تک کوئی وظیفہ نہیں دیا جائے گا جب تک ان کا دودھ چھڑا نہ دیا جائے۔ اس کی وجہ سے فطری طور پر والدین بچوں کے لیے وظیفہ حاصل کرنے کی خواہش میں دودھ چھڑانے کی مدت کو کم کر دیتے تھے۔ خلیفہ عمر ؓ نے ایک رات نگرانی کے دوران ایک بچے کے رونے کی آواز بار بار سنی ، تو پتہ کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ اس کی ماں صرف اس لیے اس بچے کو قبل از وقت دودھ دھڑوانا چاہ رہی تھی تا کہ وہ بھی وظیفے کا حقدار بن سکے۔ یہ سن کر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد روتےہوئے عمر ؓ نے کہا، "عمر برباد ہو گیا، اس نے مسلمانوں کی اولاد کو قتل کر دیا " ۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب سے دودھ پینے والے بچوں اور دودھ چھوڑنے والے بچوں، دونوں کو ریاست کی طرف سےوظیفہ ملے گا۔
عمر بن الخطاب ؓ خلیفہ ہونے کے باوجود ایک بچے کے رونے پر ماں سے بات چیت کر رہے تھے۔ ان کے لیے عورت اور بچے کا حق ان کی پہلی ترجیح اور فکرمندی کی بات تھی۔انہوں نے خود سے نادانستہ طور پرسرزد ہونے والی غلطی کو محسوس کیا اور فوراً اپنے سابقہ احکامات کو منسوخ کر دیا اور اِن کی جگہ بہتر احکامات کولاگو کیا۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں جو اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ جہاں اسلام کا نظام پروان چڑھتا ہے، وہاں حکمرانوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ امت کی دیکھ بھال کریں جیسا کہ وہ خود اپنی اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت اس سے بالکل متضاد صورت حال پیدا کرتی ہے، جہاں حکمران امت کی تکلیفوں کے عوض فائدے اٹھاتے ہیں۔یہ بے حس حکمران جمہوریت کے کرپٹ نظام کی فطری پیداوار ہیں جنہیں اتار پھینکنا اور اس کی جگہ اسلام کا اپنا نظام حکومت ِ لانا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور میں نافذ تھا۔
Tweet
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں