افواج پاکستان سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خطاب
افواج پاکستان سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خطاب
مسلم ممالک کے ساٹھ کے قریب عرب اور غیر عرب حکمرانوں نے بروز ہفتہ 11نومبر، 2023 کو ریاض میں ملاقات کی تاکہ غزہ پر یہودی جارحیت پر بحث کی جا سکے۔ یعنی یہودی جارحیت کے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد، گیارہ ہزار سے زائد شہیدوں اور تیس ہزار زخمیوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ گویا ان حکمرانوں کو اس کا انتظار تھا کہ ناپاک یہودی، غزہ کے مسلمانوں کے خلاف جس حد تک جاسکتے ہیں،جرائم میں ان تمام حدوں کو پار کردیں!
ان حکام کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ساتھ کھڑے ہوں تو ایک تصویر میں بھی بمشکل پورے آتے ہیں۔ اور اب اتنا کچھ گزر جانے کے بعد انہوں نے اپنی خاموشی کو توڑا ہے اور غزہ میں یہودی وجود کی وحشیانہ کاروائیوں کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں۔ یہ حکمران محاصرہ ختم کرنے، غزہ پر بمباریاں روکنے اور کراسنگ کھولنے کا مطالبہ کس سے کرتے ہیں؟ جبکہ یہ خود کچھ نہیں کر رہے؟ اس کے بعد جب ہر ایک نے اپنے اپنے کاغذات تہہ کر لیے، جس پر انہوں نے وہ چند باتیں لکھی ہوئی تھیں اور کچھ دیر کے لیے سَستا لینے کے بعد اپنا بیان جاری کیا، جو کانفرنس کے آغاز میں ان کے الفاظ کی بازگشت تھا۔ اس بیان میں انہوں نے اس جارحیت کی مذمت کی۔ اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ۔۔۔ اور سلامتی کونسل سے ایک فیصلہ کن اقدام اور لازمی فیصلہ لینے کا مطالبہ کیا جس سے جارحیت کا خاتمہ ہوجائے اور قابض استعماری اتھارٹی کو لگام دی جائے جو بین الاقوامی قانون، عالمی انسانی قانون اور عالمی قانونی قراردادوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ بیان میں غزہ کا محاصرہ توڑنے اور عرب، اسلامی اور بین الاقوامی امدادی قافلوں کے لیے راستہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ کئی وزرائے خارجہ کو غزہ پر جنگ کو روکنے کے لیے فوری بین الاقوامی کارروائی شروع کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف 15 لاکھ کے قریب لوگوں کو بے گھر کر دینے کی مذمت کی گئی، فلسطینی شہروں اور کیمپوں کے خلاف قابض افواج کی جانب سے شروع کی گئی فوجی کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔۔۔ یروشلم میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی گئی ... اسٹریٹجک آپشن کے طور پر امن کی پاسداری کی از سر نو تاکیدکی گئی۔۔۔ اور ایسا جامع حل پیش کیا گیا جو 4 جون 1967 کے خطوط پر ایک بار پھر غزہ اور مغربی کنارے کی وحدت کی شکل میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت دے جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔
یہ تھی ان کی کانفرنس، ان کی گفتگو، ان کا آرام اور پھر ان کا بیان جس سے بچوں کو قتل کرنے، ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد اور مکانات کو مسمار کرنے اور پتھروں اور درختوں تک کو جلاڈالنے کے صیہونی جرائم کے انسداد کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہودی وجود نے تو بجلی کی فراہمی منقطع کر دی اور ایندھن اور ادویات کو بھی ہسپتالوں اور ان کے اندر موجود مریضوں تک پہنچنے سے روک دیا، جس سے اموات میں مزید اضافہ ہوا اور ہسپتال کے فرش پر لاشوں کے اتنے ڈھیر لگ گئے جن کو مسلمان دفن بھی نہیں کر پا رہے ۔۔۔ اور یہ سب کچھ مسلم ممالک کے بے ضمیر حکمرانوں کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔
ان حکمرانوں کو اس بات کا احساس کیوں نہیں یا انہیں کیوں یہ سمجھ نہیں آتا کہ دشمن فوج کی طرف سے جارحیت کے وقت فوج کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ ان کے پشت پناہوں کو بھی پسپا ہونے پر مجبور کر دے ؟ فرمان ِ الہٰی ہے کہ ﴿فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ﴾ ’’تو اگر تم کہیں انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو جس سے وہ لوگ منتشر ہو جائیں جو ان کے پشت پناہ ہوں، شاید کہ انہیں عبرت ہو“ (الانفال: 57)۔
انہیں کیوں سمجھ نہیں آتا کہ ذلیل و گھٹیا کے آگے اگر کوئی کھڑا نہ ہوتو اس کی درندگی مزید بڑھتی چلی جاتی ہے، کیا دشمن کو جواب اس طرح دیا جاتا ہے کہ بجائے افواج کو متحرک کرنے کے، پھولوں کی طرح نرم الفاظ بولے جائیں؟ کیا انہوں نےغالب وقہار، اللہ کا یہ قول نہیں سنا کہ: ﴿قَٰتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ ٱللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍۢ مُّؤْمِنِينَ﴾ ’’ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا، اور تمہیں ان پر فتح دے گا اور مومنوں کے سینوں کو شفا بخشے گا‘‘ (التوبہ:14)۔
یہ جس دو ریاستی حل کے لیے پکار رہے ہیں، کیا یہ اللہ سے، اس کے رسول ﷺ سے اور مومنوں سےغداری اور خیانت نہیں ہے؟ کیا اسلام کی سرزمین اپنے لوگوں اور اپنے دشمنوں کے درمیان تقسیم کو قبول کرتی ہے؟ کیا فلسطین کے آس پاس کے مسلم ممالک میں سے کسی کے پاس ایسے سپاہی نہیں ہیں جو فلسطین پر قابض اور اس کے عوام کو وہاں سے نکالنے والے اس شرانگیز وجود پر قابو پا سکیں؟ کیا مسلمان سپاہی اس وجود کو ختم کرنے اور فلسطین کو مکمل طور پر بحال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ ایک بار پھر اسلام کے نور سے منور سرزمین بنے؟ کیا جس نے مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکال دیا وہ اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ مسلمانوں کی افواج ان سے جنگ کریں؟ اور اسے وہاں سے اس طرح نکال دیا جائے جس طرح انہوں نے اس کے لوگوں کو نکالا؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ﴿وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ﴾ ’’اور ان کو جہاں پاؤ وہاں انہیں قتل کرو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا‘‘ (البقرۃ: 191)۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ حکمران اتنے بڑے فرض سے لا علم ہیں؟
دراصل،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکمران سب کچھ جانتے ہیں لیکن ان پر بد بختی کا غلبہ ہے اور یہ کافر استعمار بالخصوص امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں، یہ کافر استعماری ممالک کی من پسند باتیں کہتے ہیں اور انہی کے کام کرتے ہیں اور ان کے کسی مطالبے کو مسترد نہیں کرتے، فقط اپنی ڈانواں ڈول کرسیوں کو بچانے کے لیے۔ ﴿قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ﴾ ’’اللہ انکو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟‘‘ (التوبہ:30)۔
اس امت کی مصیبت اس کے یہ حکمران ہیں۔ یہ شہداء کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، بچوں کی چیخیں اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور لوگوں کے اپنے بچوں اور عورتوں کے ساتھ گھروں سے بے گھر ہونے کے دل سوز مناظر دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان حکمرانوں نے دیکھا اور ان کی سماعتوں اور بصارتوں سے ٹکرایا، لیکن مُعتصِم جیسی بہادری کی ان کو ہوا تک نہ لگی۔ اور یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہےجبکہ یہ لوگ یہودی وجود کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں، پھر بھی یہ افواج کو متحرک نہیں کرتے اور نہ ہی مدد کے لیے پکارنے پر جواب دیتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ مُردے کو زخم کا درد محسوس نہیں ہوتا!
اے افواج پاکستان کے مسلمانو! اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں مخاطب کر کے فرماتا ہے: ﴿ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ﴾ ’’اور اگر وہ دین میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے‘‘ (الانفال:72)۔ اے افسران اور سپاہیو! غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے لپکو جو یہودی وجود سے تن تنہا لڑ رہے ہیں جس نے اس اسلامی سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اے پاک فوج کے شیرو! ان لوگوں سے لڑو جو ذلت و مسکنت کا پیکر ہیں، اور جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ فلسطین کو مکمل طور پر اسلام اور مسلمانوں کی طرف لوٹانے کے لیے آگے بڑھو۔ اے افواج! اللہ کی طرف سے اس قریب آنے والی فتح کی طرف بڑھو، اور اہل ایمان کو فتح کی بشارت دو!
﴿اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ﴾ ’’بیشک اس (قرآن) میں اس کے لیے ضرور نصیحت ہے جو صاحبِ دل ہو یا جو ذہن حاضر کر کے کان لگائے“ (قٓ: 37)۔
Tweet
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں